1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگامی حالت کے خلاف ترکی ميں ملگ گير احتجاجی مظاہرے

16 اپریل 2018

ترکی کی مرکزی اپوزيشن جماعت کے زير انتظام ملک گير احتجاجی ريلياں نکالی گئيں۔ يہ مظاہرے ملک ميں سن 2016 سے جاری ہنگامی حالت کی مخالفت ميں کيے گئے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2w7NN
Istanbul Taksim Protest gegen Ausnahmeszustand
تصویر: DW/ A. Duran

ترکی کی مرکزی اپوزيشن جماعت پيپلز ری پبلکن پارٹی (CHP) نے ملک کے تمام اکياسی صوبوں ميں آج پير سولہ اپريل کے روز احتجاجی ريليوں کا اہتمام کيا۔ يہ ملک گير احتجاجی مظاہرے ملک ميں پچھلے دو سال سے نافذ ايمرجنسی کے خلاف کيے گئے۔

ترکی ميں ناکام فوجی بغاوت کے بعد نافذ کی گئی ہنگامی حالت آج بھی جاری ہے۔ اس صورتحال ميں حکومت بے پناہ اختيارات کی حامل ہے۔ سن 2016 ميں صدر رجب طيب ايردوآن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے تناظر ميں اب تک پچاس ہزار افراد جيلوں ميں قيد ہيں جبکہ ڈيڑھ لاکھ سے زائد افراد کو ان کی نوکريوں سے فارغ کيا جا چکا ہے۔ اس دوران متعدد اہم امور پر حکم نامے جاری ہو چکے ہيں، جن ميں ملکی سلامتی سے متعلق امور اور چينی کی فيکٹريوں کی نجکاری شامل ہيں۔

ترک حزب اختلاف نے ان مظاہروں کا اہتمام ايک ايسے موقع پر کيا ہے، جب اسی ہفتے بدھ کو ہنگامی حالت ميں توسيع کے معاملے پر پارليمان ميں رائے دہی ہونے والی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ہنگامی حالت ميں توسيع دہشت گردی کے خاتمے کے ليے لازمی ہے۔ اپوزيشن کا البتہ موقف ہے کہ ڈيڑھ برس سے زائد عرصے سے جاری ہنگامی حالت کے سبب جمہوريت اور قانون کی بالادستی متاثر ہو رہی ہے۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ يہ مظاہرے اس متنازعہ ريفرنڈم کے عين ايک برس مکمل ہونے کے موقع پر کيے گئے، جس کے نتيجے ميں صدر ايردوآن کے اختيارات ميں بے پناہ اضافہ ہو گيا تھا۔

ترکی ميں ذرائع ابلاغ کے اکثريتی اداروں نے ان مظاہروں پر کوئی رپورٹنگ نہيں کی تاہم پيپلز ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی جانب سے سوشل ميڈيا پر جاری کردہ ويڈيوز اور تصاوير ميں ہزاروں افراد کو مظاہروں ميں شرکت کرتے ہوئے ديکھا جا سکتا ہے۔

ترکی میں آئینی ریفرنڈم

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں