1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم وہی کہیں گے، جو سچ ہو گا، یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے‘

3 مئی 2018

آج دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے اور ڈی ڈبلیو کے پینسٹھ سال پورے ہونے کے موقع پر اس بین لاقوامی نشریاتی ادارے کے سربراہ پیٹر لمبورگ نے اپنے تبصرے میں ڈی ڈبلیو کے عزم کو دہرایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2x4oz
Deutsche Welle Mikrophon
تصویر: DW

تین مئی آزادی صحافت کا عالمی دن ہے۔ شکر ہے کہ ایسا کوئی دن منایا جاتا ہے۔ آزادی صحافت، بہت سے لوگوں کے لیے محض زبانی جمع خرچ کی خاطر ایک بہترین موضوع ہے۔ کم از کم سال میں ایک دن تو اس انسانی حق کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ تاہم بقیہ 364 دنوں میں دنیا عام طور پر اس موضوع پر کم ہی دھیان دیتی ہے۔ اس کی چند مثالیں:

پاکستانی صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک شہر اسلام آباد

افغانستان ميں دھماکے آزادی صحافت پر حملہ ہیں، تبصرہ

اب یورپ بھی صحافیوں کے لیے خطرناک بنتا ہوا

اقتصادی مفادات کی خاطر خاموشی

یورپی جمہوریت پسند سیاستدان اس سلسلے میں غیر معمولی کوششیں کرتے ہوئے چین کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ چین میں آزادی صحافت کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس ملک میں ڈی ڈبلیو سمیت دیگر غیر ملکی نشریاتی اداروں کی غیر جانبدرانہ رپورٹنگ پر مکمل طور پر پابندی ہے۔ اور اس حوالے سے ان اداروں کی رپورٹوں کی حیثیت چین کے لیے کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ ساتھ ہی اقتصادی شعبے کے نمائندے انسانی حقوق کے بجائے چین کے ساتھ تجارتی روابط میں اضافے کے بارے زیادہ سوچتے ہیں۔ اس طرح انسان بیجنگ کے ہتھکنڈوں اور اس کے اپنی طاقت کے دعووں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر ان غیر ملکی سرمایہ کاروں کو چین میں کسی وجہ سے پھنسا لیا جاتا ہے تو ان کے لیے کوئی بھی مظاہرے نہیں کرے گا۔ چینی ذرائع ابلاغ میں حکومت پر تنقید کا کوئی سوال ہی نہیں۔

حیرانی کی بات ہے کہ جرمن اور یورپی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے موقف کو ’صحیح انداز‘ میں سمجھتے ہوئے نیٹو اور یورپی یونین کے حوالے سے پوٹن کے خدشات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ دوسری جانب روس میں صحافیوں کو درپیش خطرات پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ وہاں صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے، تشدد اور قتل کر دیے جانے جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ نئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا اس سارے معاملے میں موقف بالکل مختلف ہے۔

ایران میں بھی ڈی ڈبلیو اور ذرائع ابلاغ کے دیگر غیر ملکی اداروں کی خبروں اور رپورٹوں پر پابندی ہے اور ان اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی منظم انداز سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے اذیتی مراکز میں قید تیئس صحافیوں کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ اس کے باوجود کچھ ایسے سیاستدان ہیں، جو ایران کے ساتھ قربت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ تہران ایک ایسی حکومت ہے، جو اسرائیل کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے مشرق وسطی کا پورا خطہ غیر مستحکم ہے اور جو دہشت گردی برآمد کرتی ہے۔

#Medienfrauen17
تصویر: DW/F. Görner

سعودی عرب میں اصلاحات: رائف بدوی کو کیا فائدہ ہو گا؟

سعودی  ولی عہد اس بات پر خوشی منا رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت مل گئی ہے اور ملک میں سنیما کھل گئے ہیں۔ اسی دوران بلاگر رائف بدوی آزادی اظہار کے بنیادی حق پر عمل کرنے کی پاداش میں سعودی جیل میں ہیں۔

افریقہ کے مطلق النان حکمرانوں کو ترقیاتی امداد دی بھی دی جاتی ہے اور وہ مزید کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں تاہم دوسری جانب وہ نوجوان اور باصلاحیت صحافیوں کو کام بھی نہیں کرنے دیتے اور خاص طور پر نجی اداروں کے صحافیوں کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

بنگلہ دیش اور پاکستان میں بلاگرز اُس وقت اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں، جب وہ ملک میں بڑھتی ہوئی مسلم شدت پسندی کے بارے میں اپنا قلم اٹھاتے ہیں۔ اس تناظر میں غیر ملکی سفارت کاروں  کی کوششیں بھی کارآمد ثابت نہیں ہو پا رہیں۔

میکسیکو رواں برس کے ہینوور میلے ’سیبٹ‘ کا ساتھی ملک ہے۔ اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دنیا کا سب سے بڑا میلہ قرار دیا جاتا ہے۔ میکسیکو میں صحافت کرنا دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ریاست منشیات فروش گروہوں پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ گزشتہ برس میکسیکو میں گیارہ صحافی قتل ہوئے اور صرف شام اس فہرست میں میکسیکو سے آگے ہے۔ اس سلسلے میں مغربی ممالک کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔

 اس طرح اگر مثالیں دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے، تو یہ فہرست طویل ہوتی چلی جائے گی اور جلد ہی نیٹو کے رکن ملک ترکی اور یورپی یونین کے ارکان پولینڈ اور ہنگری کا نام آ جائے گا۔ یہ فہرست بہرحال افسوس ناک ہے اور اس تناظر میں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرنا ہو گا۔

ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں؟

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی حکومت اور سیاستدان کے بارے میں رائے یہ دیکھتے ہوئے قائم کریں کہ وہ صحافیوں اور آزادی صحافت پر ہونے والے حملوں کے خلاف کس طرح کا احتجاج کر رہے ہیں۔

کیا یہ آمروں کو واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ ہماری اقدار کیا ہیں؟ کیا یہ ان معاہدوں سے گریز کرنے پر تیار ہیں، جو ہماری اقدار کے لیے نقصان دہ ہوں گے؟ کیا یہ ترقیاتی امداد کو انسانی حقوق اور آزادی صحافت کی صورتحال سے نتھی کرنے پر تیار ہیں؟

آمروں، عوامیت پسندوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ سیاستدان اسی وقت فائدے میں رہ سکتے ہیں، جب جمہوریت کی جڑیں اور بنیاد مضبوط ہو۔

آج تین مئی کو ڈوئچے ویلے کے قیام کی سالگرہ بھی ہے ۔ گزشتہ پینسٹھ برسوں سے ہم دنیا بھر کے انسانوں کو آزادانہ اور غیر جانبدار طریقے سے حالات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہم مستقبل میں بھی آزادی صحافت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم وہی کہیں گے، جو سچ ہو گا۔ یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔