’ہم نے نفرت کو شکست دے دی‘، ناروے میں تعزیتی تقریب
22 اگست 2011اس مرکزی قومی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ژَینز سٹولٹن برگ نے کہا کہ اس دہشت گردی کے جواب میں اور زیادہ کھلے پن، رواداری اور جمہوریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناروے کے شہریوں نے مشترکہ طور پر نفرت کو شکست دے دی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ان حملوں میں مرنے والوں کے لواحقین کو ابھی ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی انسانوں کی مدد اور ہمدردی درکار ہو گی: ’’اتوار کے کھانے پر خالی پڑی ہوئی کرسی۔ سالگرہ والے بچے کے بغیر سالگرہ کا دن۔ کرسمس کا پہلا تہوار۔ آپ مدد کر سکتے ہیں۔ ایک کیک بنائیے۔ کسی کو کافی پر بلائیے۔ مل جُل کر سیر پر جائیے۔ اس سے بڑا نیک کام آپ کوئی نہیں کر سکتے۔‘‘
وزیر اعظم سٹولٹن برگ سے بھی پہلے ناروے کے بادشاہ ہیرالڈ پنجم نے دہشت گردی کا شکار ہونے والے 77 افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا۔ اپنی جذبات سے مغلوب آواز میں اُنہوں نے کہا: ’’ایک باپ، ایک نانا دادا اور ایک شوہر کے طور پر مَیں آپ کے دکھ درد کا محض اندازہ ہی کر سکتا ہوں۔ ملک کے بادشاہ کے طور پر مَیں آپ کے احساسات میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘
اس تقریب میں ناروے کے مشہور ترین فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرنے والوں کو الوداع کہا۔ کل کی اس باوقار تقریب کے ساتھ ہی ناروے میں سوگ کا قومی وِیک اَینڈ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
اس سے پہلے جمعے اور ہفتے کو مرنے والوں کے لواحقین نے جزیرے اوٹویا کا دورہ کیا، جہاں 32 سالہ حملہ آور آندرس بیہرنگ بریوک نے بائیس جولائی کو فائرنگ کر کے حکمران جماعت کے ایک یوتھ کیمپ کے 69 شرکاء کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس فائرنگ سے کچھ ہی پہلے بریوک کی طرف سے دارالحکومت اوسلو میں کیے گئے ایک بم دھماکے میں بھی آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹ: البریخت برائٹ شُوہ (اوسلو) / امجد علی
ادارت: مقبول ملک