1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

‘ہم سب ٹینگو کے لیے پاگل‘

بینش جاوید30 جون 2016

ذہنی امراض ميں مبتلا افراد کے ليے بیونس آئرس کے ايک ہسپتال میں بند کھڑکیاں ماحول کو بے جان سا بنا دیتی ہیں لیکن جیسے ہی ٹینگو میوزک بجایا جاتا ہے ہسپتال کا افسردہ ماحول بالکل ہی تبديل ہو جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JGbA
Bildergalerie Tanzen Tango
ٹینگو کلاس میں مریض رقص کے ذریعے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

بیونس آئرس کے ’بورڈا ہسپتال‘ میں مہینے میں دو مرتبہ ٹینگو ڈانس سکھایا جاتا ہے۔ اس ڈانس کلاس کو ’ہم سب ٹینگو کے لیے پاگل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ٹینگو ڈانس ٹیچر لورا سیگاڈے نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ذہنی مریض اکثر خاموشی سے ہر بات مان لیتے ہیں لیکن ٹینگو کلاس میں یہ رقص کے ذریعے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔‘‘ ٹینگو ڈانس ٹیچر کا کہنا ہے کہ ہم ایک آدمی کو ایک آدمی ہونے جیسا محسوس کراتے ہیں۔ یہ لوگ کلاس میں مریض کی حیثیت سے آتے ہیں لیکن جب یہاں سے جاتے ہیں تو وہ ڈانس کے فن کے شاگرد بن کر جاتے ہیں۔‘‘

ذہنی امراض ميں مبتلا افراد کے لیے بورڈا ارجنٹائن میں مردوں کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ ڈانس کلاسوں میں خواتین ڈانس پارٹنرز باہر سے رضاکارنہ طور پر آتی ہیں۔ ہسپتال کے ماہر نفسیات گوائل ارمو کا کہنا ہے کہ ٹینگو ڈانس کے ذریعے مریضوں کو اپنی تخیلقی صلاحیتوں اور اپنے جسم کومثبت انداز میں استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ہسپتال کے ایک مریض ماکسیمیلانو کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھا محسوس کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بہت اچھا رقص کیا ہے۔ ماکسیمیلانو ہسپتال میں مريض نہيں لیکن پھر بھی وہ مریضوں کے ساتھ ٹینگو کی کلاسیں ضرور لیتے ہیں۔

Argentinien Buenos Aires Festival Tango
رقص ’شیزوفرینا‘ جیسے مرض میں لاحق مریضوں کی زندگیوں میں رنگ پیدا کر سکتا ہےتصویر: AP

اس ٹینگو ورکشاپ کا انعقاد ماہر نفسیات سیلوانا پرل کرتی ہیں۔ کلاس سے قبل وہ ہسپتال میں تمام مریضوں کو ڈانس کلاس میں حصہ لینے کے لیے بلاتی ہیں۔ کئی مریض ایسے بھی ہیں جو اس کلاس میں نہیں جانا چاہتے۔ اپنی دوائی لینے کے انتظار میں کھڑے ایک مریض نے سیلوانا کو کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہیں۔

سیلوانا کہتی ہیں کہ ٹینگو کلاس کا مقصد مریضوں کی ہسپتال کی روٹین کو توڑنا ہے۔ رقص ’شیزوفرینا‘ جیسے مرض میں لاحق مریضوں کی زندگیوں میں رنگ پیدا کر سکتا ہے اور ان مریضوں کی بے جان زندگیوں میں مصورانہ ہل چل مچا سکتا ہے۔

ہسپتال کی کنٹین میں بنائے گئے ڈانس فلور پر کچھ مریض رضاکارانہ پارٹنرز کے ساتھ باتیں کرتے اور ہنستے مسکراتے ٹینگو میوزک پر رقص کر رہے ہیں۔ 53 سالہ ڈانس انسٹرکٹر روکی سیلس کہتے ہیں، ’’یہ مریض صرف میرے دیے گئے احکامات پر عمل نہیں کرتے بلکہ یہ خود سیکھ کر ڈانس کرتے ہیں۔‘‘

کلاس کے اختتام پر سب ٹیگو گانے گاتے ہیں۔ ذہنی امراض میں لاحق مریضوں نے کلاس کا اختتام ’ یہ دنیا گندگی کا ڈھیر ہے اور ایسے ہی رہے گی‘ گانا گاتے ہوئے کیا۔