1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم تو صرف اور صرف غلام ہیں‘

کشور مصطًفیٰ30 اپریل 2015

جبری مشقت کا فرسودہ رواج چین، بھارت اور پاکستان کے لاکھوں انسانوں کا مقدر بنا ہوا ہے۔ مقروض انسانوں سے فارموں کے مالکان، زمین دار یا فیکٹریوں کے کرتا دھرتا جبری بیگار لیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FIAH
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

غربت کے شکار افراد کو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے اور اُن کی طبّی ضروریات پورا کرنے کے لیے اکثر قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قرض کی ادائیگی کا معاملہ اقتصادی اعتبار سے نہایت کمزور اور لاچار ان انسانوں کی زندگیوں کو مزید عذاب میں مبتلا رکھتا ہے۔ قرض لینے پر مجبور ان انسانوں کو اکثر غیر واضح شرائط پر قرض دیا جاتا ہے اور قرض دہندگان یا نام نہاد آجرین مقروض افراد کا ممکنہ حد تک استحصال کرتے ہیں۔ قرض دینے والے اپنی مرضی سے اکثر و بیشتر قرضے کے سود کا تناسب بڑھاتے رہتے ہیں یا مزدوروں کی تنخواہوں میں سے پیسے کاٹ لیتے ہیں اور مقروض افراد نسل در نسل قرض کے اس بوجھ تلے دبے استحصال کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔

المناک کہانیاں

محمد اسرار کا خاندان تین نسلوں سے پاکستان کی اینٹیں بنانے والے ایک بھٹے میں جبری طور پر کام کر رہا ہے۔ اسرار کے والد نے کوئی 40 سال قبل قرض لیا تھا، جس کو ادا کرنے کے لیے اس کے خاندان کو اس فیکٹری میں جبری مشقت کرنا پڑ رہی ہے۔ 35 سالہ اسرار ایک مایوس کُن زندگی گزار رہا ہے، اُسے بہتری کی امید کہیں نہیں نظر آ رہی۔ اُسے خوف ہے کہ اُس کے چھ بچوں میں سے شاید کسی ایک کو بھی قرضوں کے اس شیطانی چکر سے نکلنا نصیب نہیں ہو گا۔

Pakistan Arbeiter Schulden Sklaverei Arbeitsbedingungen
پاکستان میں قرض داروں کی نسلیں استحصال کی چکی میں پستی رہتی ہیںتصویر: picture alliance/ANN

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ہی قائم اس بھٹے میں اپنے ہی خاندان والوں کی محنت سے تیار شُدہ اینٹوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھے ہوئے محمد اسرار کا کہنا تھا، ’میری زندگی جہنم بنی ہوئی ہے، میں نہیں چاہتا کہ میرے بچوں کی زندگی بھی اسی عذاب میں مبتلا رہے مگر میں کروں کیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں اس چکر سے باہر کیسے نکلوں‘۔

اسرار کے والد نے اس بھٹے کے مالک چودھری صابر حسین سے اس وعدے پر قرض لیا تھا کہ وہ اُن کے لیے مزدوری کر کے قرض ادا کر دیں گے۔ اسرار کو یہ نہیں پتہ کہ اُس کے والد نے کس مد میں قرض کی رقم لی تھی تاہم اس بارے میں اُسے مکمل آگاہی ہے کہ اُس کے والد نے ساری عمر مزدوری کی تاہم قرض کا بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا۔ بھٹے کے مالک کی طرف سے اسرار کے گھر والوں کے طعام و قیام کے اخراجات میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہا، اکثر و بیشتر اس کے گھر والوں کو ہنگامی طور پر طبیّ ضروریات پوری کرنے یا شادی بیاہ کے لیے رقوم کی ضرورت پڑتی رہی۔ اسرار کہتا ہے، ’اس طرح ہمارے اوپر قرضے کا بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا اور اب میں مکمل طور پر اس کے نیچے دب چکا ہوں‘۔

اسرار کے قریب دو درجن رشتے دار، 9 بھائی، پانچ بہنیں اور اُس کی بیوی چودھری صابر حسین کے اس بھٹے پر مزدوری کرتے ہیں۔ اسرار نے مغموم لہجے میں کہا:’’ہم صرف اور صرف غلاُم ہیں۔‘‘

اُدھر پاکستان کے اینٹیں بنانے والے بھٹوں کے ہزاروں مالکان کی طرح چودھری صابر حسین بھی اسرار اور اُس کے خاندان سمیت درجنوں دیگر مزدوروں کے ساتھ اپنے رویے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’جب انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہمارے پاس آتے ہیں، ہم انہیں پیسے دیتے ہیں یہ اُس کے عوض ہمارے بھٹے پر مزدوری کرتے ہیں، یہ ایک نارمل بزنس ہے، اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔‘‘

China Symbolbild Wirtschaft
جبری مشقت کی سب سے بڑی مثال چینتصویر: Reuters/J. Lee

چودھری صابر حسین کے مطابق اینٹیں بنانے والے بھٹوں کے مالکان قرضے صرف اُنہی لوگوں کو دیتے ہیں، جو کسی تیسرے شخص یا ضامن کے ذریعے اُن سے رجوع کرتے ہیں تاکہ کسی تنازعے کی صورت میں وہ ثالث کا کردار ادا کر سکے۔ قرضہ لینے والا کوئی شخص یا مقروض خاندان اگر فرار ہونے کی کوشش کرے تو ثالث کی مدد سے ان کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ فیکٹری کے مالکان مقروض افراد کے خاندان والوں کے شناختی کارڈ اپنی تحویل میں رکھ لیتے ہیں تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔

قانون موجود، اطلاق میں تاخیر

جبری مشقت محض اینٹیں بنانے والے بھٹوں میں ہی نہیں لی جا رہی ہے بلکہ قالین بافی، زراعت اور دیگر غیر منظم صنعتوں میں بھی یہ رواج عام ہے۔ ’واک فری فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے گزشتہ برس شائع کیے جانے والے ایک گلوبل سروے کے مطابق بھارت اور چین کے بعد جبری مشقت کے ضمن میں پاکستان دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ فاؤنڈیشن کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے اور جبری مشقت پر مجبور افراد کی تعداد 2.1 ملین تک ہے جبکہ دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد 36 ملین بتائی گئی ہے۔ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ تعداد مذکورہ تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ’بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان‘ سے منسلک انسانی حقوق کے لیے سرگرم مہر صفدر علی کے بقول، ’پاکستان میں ممکنہ طور پر پانچ ملین سے زائد انسان اس وقت اس غلامی میں گرفتار ہیں‘۔

China Symbolbild Arbeitsmarkt, Lohnkosten
مزدور پیشہ انسان مشینی زندگی بسر کرنے پر مجبورتصویر: Reuters/J. Lee

’واک فری فاؤنڈیشن‘ نے کہا ہے کہ حکومت کو 1992ء میں منظور ہونے والے اُس قانون پر اطلاق کو ممکن بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہییں، جس کے تحت پاکستان میں جبری مشقت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ نیز پاکستانی اقتصادیات کے غیر منظم اور بے ضابطہ سیکٹرز کو منظم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔