1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم بھی امریکی ہیں‘

2 اگست 2011

امریکی ریاست ورجینیا میں قائم مسلم تنظیم ’ADAMS‘ کے مطابق ایف بی آئی، امریکی وزارت خارجہ اور دیگر سرکاری محکموں سے ان کے روابط بہت خوشگوار ہیں۔’ADAMS‘ کا دعویٰ ہےکہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔

https://p.dw.com/p/125Zm

ADAMS کے ترجمان ’رضوان یاکا‘ کا کہنا ہے ’’ہم لوگوں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم انتہاپسندی اور دہشت گردی کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔‘‘ اسی وجہ سے تنظیم خواتین کے لیے مساوی حقوق کی بات کرتی ہے، دیگر مذاہب کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی وکالت کرتی ہے اور سماجی مصروفیات تنظیم کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

Muslime in den USA
ہم ہشت گردی اور انتہاپسندی کی مخالفت کرتے ہیں، رضوان یاکاتصویر: DW

رضوان یاکا بتاتے ہیں کہ2011ء کے دہشت گردانہ حملے جس دن ہوئے تھے، اُس روز نا معلوم افراد نے ایک پرانی مسجد میں توڑ پھوڑ کی، جس جگہ نئی مسجد تعمیر کی جانی تھی وہاں موجود سامان کو نذر آتش کر دیا۔ تاہم یاکا کے بقول علاقے میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے فوراً ہی مسلم برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرتے ہوئے مکمل تعاون کیا۔ مختلف مقامات کی نگرانی کے لیے لوگ پہنچے بھی اور کئی لوگوں نے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر آپ کی خواتین کو باہر جانے میں خوف محسوس ہو رہا ہے تو وہ ان کے ساتھ جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔

رابرٹ مارو بھی رضوان یاکا کی طرح ADAMS کی انتظامی کمیٹی کے رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گراؤنڈ زیرو پر اسلامی مرکز کی تعمیر کا معاملہ ہو یا فلوریڈا کے پادری کی جانب سے قرآن کے نسخے جلانے کی بات ہو، ان سب کا تعلق سیاست سے ہے۔ ساتھ ہی ذرائع ابلاغ بھی اس طرح کی واقعات میں کچھ کم قصوروار نہیں ہوتا۔ رابرٹ مارو بہت پر امید ہے کہ جلد یا بدیر امریکہ میں آباد مسلمان اس معاشرے کا ویسے ہی حصہ بن جائیں گے، جس طرح اطالوی اور آئرش باشندے ہیں۔

سمیرا حسین کا تعلق فلسطین سے ہے اور وہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے شمال کی جانب میریلینڈ میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں ابھی وہ وقت آنے میں دیر لگے گی، جب لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ دوسرا شخص مسلمان ہے یا مسیحی۔ ماضی میں وہ متعصبانہ رویے کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ان کے بقول امیتازی سلوک کی ابتدا پہلی خلیجی جنگ کے بعد ہوئی۔’’ شروع میں گاڑی کو نقصان پہنچایا گیا، ٹائرکاٹ دیے گئے، گھرکا دروازہ توڑنے کی کوشش کی گئی، ہم پرکوڑا اور مردہ پرندے پھینکے گئے۔‘‘ ساتھ ہی اسکول کے راستے میں ان کے بچوں کا پیچھا کیا جاتا تھا اور اسکول میں انہیں مارا پیٹا بھی گیا۔ پھر11ستمبر کے حملوں نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ سماجی کارکن سمیرا کے ساتھ ان کے روزگار کی جگہ پر بھی امتیازی سلوک برتا گیا۔

Muslime in den USA
’ADAMS‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔تصویر: DW

نتیجتاً انہوں نے اپنے علاقے میں سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ سمیرا نے اسکول کی سطح پر بچوں کو سمجھایا کہ وہ حجاب کیوں پہنتی ہیں۔ سمیرا کہتی ہیں کہ اگر بچوں کو مذہب اور ثقافت کے بارے میں صحیح معلومات ہو تو اس کا اثر والدین پر بھی پڑتا ہے اور ان کی سوچ بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ مقامی سطح پر سمیرا کی طرف سے معاشرے میں پائی جانے والی عدم رواداری کے خلاف سرگرمیوں کو تسلیم کیا گیا اور ان کی خدمات کے صلے میں 2002 ء میں علاقے میں ایک سرکاری دفاتر کے قریب نصب تانبے کے ایک مجمسے کے نیچے ان کا نام کہدوا دیا گیا۔

رپورٹ: کرسٹینا بیرگمان/ ترجمہ: عدنان اسحاق

ادارت : کشور مصطفٰی