ہلیری کلنٹن کے بیان پر شمالی کوریا کا سخت ردعمل
24 جولائی 2009امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے مطالبے کے باوجود آسیان نے میانمار کی رکنیت ختم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
شمالی کوریا کے خبر رساں ادارے KCNA کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کے بیانات کی روشنی میں اُنہیں "کسی طور بھی دانشمند نہیں کہا جا سکتا ہے"۔
کل بدھ کو تھائی لینڈ میں مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے سمٹ کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شمالی کوریا کو جوہری پروگرام ترک کر دینے کی تلقین کی تھی۔ شمالی کوریا نے 25 مئی کو نئے ایٹمی تجربات کئے تھے۔کلنٹن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "شمالی کوریا تنہا کھڑا ہے اور اب اسےجوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی برادری کے مطالبات ہر صورت میں ماننا ہوں گے، کوئی اُس کی مدد کو نہیں آئے گا"۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورہء ایشیا کے دوران اس رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کے وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ "کلنٹن ایک غیر منطقی بچے کا سا برتاؤ کر رہی ہیں"۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ "کبھی تو وہ اسکول کی بچی معلوم ہوتی ہیں اور کبھی ایک ایسے پینشنر کی طرح، جو خریداری کرنے نکلا ہو"۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے گذشتہ روز آسیان ممالک سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ فوجی حکومت کے ہاتھوں نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سُوچی کی گرفتاری کی وجہ سے میانمار کی رکنیت ختم کر دے۔ تاہم آسیان کے صدر اور تھائی لینڈ کے وزیر اعظم ابھیسیت وجےجیوا نے کلنٹن کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تھائی وزیر اعظم نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ "گو مغربی ممالک اور آسیان ایک مشترکہ مقصد رکھتے ہیں مگر اس کے لئے ضروری نہیں کہ حکمت عملی بھی ایک ہی رکھی جائے"۔
وجے جیوا کا کہنا ہے کہ میانمار کی رکنیت ختم کرنے کے لئےیہ وجہ کافی نہیں ہے اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ عمل میانمار کو مزید تنہا کر دے گا اور اس سے مسئلے کا حل ممکن نہیں ہے۔
1997ء میں آسیان کا رکن بننے والا میانمار، حال ہی میں خاتون سیاستدان آنگ سان سُوچی کی گرفتاری کے باعث پوری دنیا کی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
رپورٹ: مِیرا جمال
ادارت: امجد علی