1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزاروں پاکستانی بچے خسرے کی زد میں

Tanvir Shahzad26 اپریل 2013

پاکستان میں خسرے کی بیماری وبا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جس پر عالمی ادارہ صحت نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں اب تک 25 ہزار کے لگ بھگ بچے اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18O31
تصویر: Tanvir Shahzad

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر صحت سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ خسرے کی بیماری کا سامنا کرنے والے 10 ہزار سے زائد بچے اب تک صوبہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں لائے جا چکے ہیں۔ ان میں سے بیماری کی شدت کی وجہ سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 56 تک پہنچ چکی ہے۔ ‘‘

سلیمہ ہاشمی کے بقول صرف لاہور شہر میں خسرے کے شکار 3100 بچے زیر علاج ہیں اور لاہور میں خسرے سے بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 33 ہو چکی ہے۔ بات قابل ذکر ہے کہ اس تعداد میں نجی ہسپتالوں میں لائے جانے والے متاثرہ یا ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق یوں تو تقریباﹰ صوبے کے تمام حصوں میں بچوں کو خسرے کی بیماری کا سامنا ہے لیکن لاہور، مظفر گڑھ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی میں صورتحال کافی سنگین ہے۔

اس تشویشناک صورتحال کی وجہ سے پنجاب کے ہسپتالوں میں خسرے سے متاثرہ بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ان کے لیے الگ وارڈز قائم کیے گئے ہیں اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ محکمہ صحت نے 29 اپریل سے پانچ مئی تک بچوں کو خسرے سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانے کی ایک بڑی مہم بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں چھہ ماہ سے 10 سال تک کی عمر کے ت30 لاکھ بچوں کو خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خسرے سے بچاؤ کے لیے لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں میں ناقص دوا استعمال کی گئی تھی۔ سلیمہ ہاشمی اس کی پرزور الفاظ میں تردید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خسرے سے بچاؤ کے لیے استعمال کی جانے والی دوا بہترین ہے جسے یونیسف نے سپلائی کیا ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین کی زیر نگرانی پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں اس دوا کو اسٹور کرنے کے قابل اطمینان انتظامات موجود ہیں۔

ادھر پنجاب کے ڈائریکٹرجنرل محکمہ صحت ڈاکٹر تنویر احمد کہتے ہیں خسرے سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکوں میں استعمال کی جانے والی دوا تو بالکل درست ہے البتہ حفاظتی ٹیکوں کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ پنجاب میں اس مرتبہ صرف 58 فیصد بچوں کو خسرے سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگائے گئے ہیں جبکہ وبائی صورت حال سے بچنے کے لیے یہ شرح 85 فی صد سے بھی زائد ہونا چاہیے تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ حفاظتی ٹیکوں میں استعمال کی جانے والی بین الاقوامی معیار کی درآمد شدہ بہترین دوا کے خلاف بے بنیاد خبروں کی وجہ سے والدین اب خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تردید یا تصدیق کرنے سے گریز کیا کہ محکمہ صحت پنجاب کے فنڈز کو میٹرو بس کی طرف منتقل کرنے کی وجہ سے وسائل کی کمی حفاظتی ٹیکوں کے نہ لگائے جانے کا باعث بنی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر تنویر نے بتایا کہ خسرے کی حالیہ بیماری کا آغاز دسمبر کے مہینے میں صوبہ سندھ میں ہوا، پھر یہ بیماری جنوبی پنجاب کے علاقوں سے ہوتی ہوئی پنجاب پہنچی۔

لاہور میں بچوں کی سب سے بڑی علاج گاہ چلڈرن ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر احسن وحید راٹھور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خسرے کی بیماری وائرل انفیکشن کی وجہ سے لگتی ہے اور یہ جراثیم تیزی سے ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

ان کے بقول اس بیماری کی ابتدائی علامات میں نزلہ، زکام، کھانسی، بخار اور آنکھوں سے پانی کا بہنا ہے بعد میں مریض کے جسم پر سرخ دانے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر مریض کو بر وقت طبی امداد نہ دی جا سکے تو یہ مرض جاں لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر راٹھور کے مطابق وہ بچے جنہوں نے ماں کا دودہ پیا ہے اور انھوں نے بہتر غذا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بچاؤ کے حفاطتی ٹیکے بھی لگوا رکھے ہیں وہ اپنی بہتر قوت مدافعت کی وجہ سے اس بیماری کا بہتر مقابلہ کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس سال خسرے کے شکار بچوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی وجہ ان کا تاخیر کے ساتھ ہسپتال لایا جانا ہے، ’’پچھلے چند ماہ میں صرف چلڈرن ہسپتال میں تاخیر سےلائے جانے والے 35 بچے صرف دو گھنٹوں کے اندر تشویشنال حالت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ ‘‘

ان کے بقول دیہات میں اس بیماری کا شکار ہونے والے بچوں کو ٹونے ٹوٹکوں کی بجائے فوری طور پر کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لایا جانا چاہیے۔ جو بخار کم کرنے والی ادویات یا وٹامن اے دے سکتا ہے جس سے متاثرہ بچوں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: افسر اعوان