1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہانگ کانگ، حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف تازہ کارروائی

عاطف بلوچ17 اکتوبر 2014

چین کے نيم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کی پولیس نے مونگ کوک میں دھرنا دیے ہوئے مظاہرین کو منتشر کر دیا ہے۔ اس کارروائی سے ایک روز قبل ہی حکومت نے مظاہرین کو نئے سرے سے مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

https://p.dw.com/p/1DWoo
تصویر: Reuters/Bobby Yip

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہانگ کانگ سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کو علی الصبح سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کرتے ہوئے ایک اہم علاقے مونگ کوک میں دھرنا دیے ہوئے مظاہرین کو منشتر کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین کی طرف سے کھڑی کردہ رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے جبکہ اس دوران مظاہرین نے کوئی خاص مزاحمت نہیں کی۔

اس کارروائی کو حکومت اور مظاہرین کے مابین مجوزہ مذاکرات کے لیے ایک برا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں گزشتہ تین ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے ایشیا کے اس اہم تجارتی مرکز میں روز مرہ کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ چین نواز چیف ایگزیکٹیو لیونگ چُن یِنگ نے ان مظاہروں کے آغاز کے ایک ہفتے بعد بھی مظاہرین کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن کچھ دنوں بعد ہی اچانک مذاکرات ختم کر دیے تھے، جس کے بعد مظاہروں میں تیزی آ گئی تھی۔ جمعرات کے دن ایک مرتبہ پھر ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

Hongkong / Räumung Barrikaden / Mongkok
اس طرح کی کارروائی سے مجوزہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیںتصویر: Reuters

تاہم مونگ کوک میں مظاہرین کے خلاف تازہ کارروائی کے باعث حکومت مخالفین کچھ بد دل سے ہو گئے ہیں۔ ایک شخص نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پولیس کی طرف سے اس طرح کی کارروائی سے مجوزہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔

مونگ کوک میں دھرنا دیے ہوئے ایک بیس سالہ طالب علم پرنس یونگ چُنگ نے بتایا کہ صبح پانچ بجے اچانک ہی پولیس نے دھاوا بول دیا اور کسی کو مزاحمت کا موقع ہی نہ ملا۔ اس وقت زیادہ تر مظاہرین سو رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے اس مقام پر نصب خیموں کو اکھاڑ کر پھاڑ دیا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کی کارروائی پر کچھ افراد نے خوشی کا اظہار بھی کیا کیونکہ ان مظاہروں کی وجہ سے نہ صرف روڈ بلاک ہیں بلکہ سرکاری دفاتر اور اسکول بھی بند ہیں۔

پچاس سالہ خاتون وونگ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’میں ان مظاہروں سے کیسے خوش ہو سکتی ہوں۔ سڑکیں کاروں کے لیے ہیں۔ ہم نے کام پر جانا ہوتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان دھرنوں کی وجہ سے انہیں اپنے کام پر جاتے ہوئے ایک گھنٹہ اضافی وقت درکار ہوتا ہے۔ وونگ کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ان کو مظاہرے کرنا ہیں تو کسی پارک میں جائیں اور وہاں شور شرابا کریں۔‘‘

ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پولیس کی کارروائی کے بعد مظاہرین ایک مرتبہ پھر مونگ کوک میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر خیموں کے ساتھ رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ہانگ کانگ کے دیگر علاقوں میں جاری مظاہروں پر کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا ہے۔

1997ء میں چین کا حصہ بننے والے سابقہ برطانوی نو آبادی ہانگ کانگ میں ان تازہ مظاہروں کے خلاف طاقت کے استعمال پر عالمی برداری پر بھی تنقید کی جا رہی ہے لیکن بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ چین کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہانگ کانگ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ 2017ء کے الیکشن میں انہیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی پسند کا امیدوار چن سکیں لیکن چین اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ اس الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست کی منظوری وہی دے گا۔ وسیع تر جمہوری و سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین چیف ایگزیکٹیو کے مستعفی ہونے پر بھی زور دے رہے ہیں۔ لیکن چین نواز لیونگ چُن یِنگ نے استعفی دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید