1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ میں سیاحوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ۔ فان گوخ میوزیم

10 اپریل 2006

ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں واقع فان گوخ میوزیم دُنیا کے مشہور ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔گذشتہ سال اِس عجائب گھر کو دیکھنے والوں کی تعداد تقریباً 1,4ملین ریکارڈ کی گئی، جن میں سے محض سترہ فیصد ہالینڈ ہی سے آئے تھے ، باقی سب غیر ملکی سیاح تھے۔اِس عجائب گھر کے نئے سربراہ کا تعلق جرمنی سے ہے۔

https://p.dw.com/p/DYM5
سیلف پورٹریٹ ۔فان گوخ میوزیم ۔ ایمسٹرڈم
سیلف پورٹریٹ ۔فان گوخ میوزیم ۔ ایمسٹرڈمتصویر: Van Gogh Museum, Amsterdam

یکم اپریل سے ایمسٹرڈم کے فان گوخ عجائب گھر کے نئے انچارج کے طور پر جس جرمن شخصیت نے اپنے فرائض سنبھال لئے ہیں ، وہ ہیں فنونِ لطیفہ کے نوجوان جرمن مو¿رخ Axel Rüger ، جو سترہویں صدی میں تخلیق ہونیوالی ولندیزی مصوری پر خصوصی دسترس رکھتے ہیں اور اِسی بناءپر اِس میوزیم کے نئے سربراہ بھی بنے ہیں۔

اِس سال مشہور ولندیزی مصور ریمبرانٹ کی چار سو وِیں سالگرہ کی مناسبت سے وہاں ایک اہم نمائش منعقد ہو رہی ہے ، جس میں ریمبرانٹ کے ساتھ ساتھ بارَوک دَور کے ایک اور اہم مصور کاراواگیو کے بھی فن پارے رکھے گئے ہیں۔اپنے پیش رَو جَون Lighton کی طرح Rüger بھی اِس سے پہلے لندن کی نیشنل گیلری سے وابستہ رہے ہیں ، سات برسوں تک۔

آکسل رِیوگر کےلئے یہ عجائب گھر ایک نئی دُنیا کے مترادِف ہے۔ اُنہیں فان گوخ یا اُن کے دَور کی مصوری کے بارے میں مقابلتاً کم معلومات حاصل ہیں لیکن آجکل اِس میوزیم میںچونکہ ریمبرانٹ اور کاراوگیو جیسے مصوروں کی نمائش ہو رہی ہے ، اِس لئے سترہویں صدی کی ولندیزی مصوری کے ماہر ہونے کی بناءپر رِیوگر بالکل صحیح وقت پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اُنہیں بڑا اچھا لگ رہاہے کہ وہ اِس نمائش کےساتھ یہاں اپنے فرائض کا آغاز کر رہے ہیں۔ اِسطرح کم از کم شروع شروع میں تو اُنہیں ایک ایسے شعبے سے واسطہ پڑے گا، جسکے بارے میں وہ قدرے ٹھوس معلومات رکھتے ہیں۔ اِس کے بعد وہ اُنیسویں اور بیس وِیں صدی کی مصوری کی طرف آئیں گے ، جہاں اُنہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔

رِیوگر 1968ءمیں جرمن شہر Dortmund میں پیدا ہوئے ، خاص طور پر برلن کی فری یونیورسٹی میں اپنی اعلیٰ تعلیم کے دوران اُنہیںسترہویں صدی کے ولندیزی اُستاد مصوروں کے کام سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ رِیوگر کے خیال میں اِس دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس مصوری نے ایک ایسے ملک میں جنم لیا ، جہاں ایک بالکل ہی نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اُس دَور میں باقی یورپی ممالک کے مقابلے میں دیکھیں تو ہالینڈ کے حالات بالکل ہی مختلف ہیں۔ یہاں نہ صرف یہ کہ کوئی درباری ثقافت موجود نہیں تھی بلکہ اُس دَور کے کیتھولک یورپ کے مقابلے میں کلیسا کا کردار بھی یہاں مختلف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں مصوروں سے توقعات بھی اور طرح کی وابستہ کی گئیں اور مصوری کی پوری مارکیٹ ہی ہالینڈ میں مختلف خطوط پر اُستوار ہوئی۔

آکسل رِیوگر کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ روانی کےساتھ ڈَچ یعنی ولندیزی زبان بولتے ہیں ، اُنہوں نے مصوری پر اپنی تحقیقی سرگرمیوںکے دوران ایمسٹرڈم شہر میںبھی بہت عرصہ گذارا ہے اور وہ ہالینڈ ہی کی Nijmegen یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔