1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیئرٹ ولڈرز قصور وار مگر سزا کا حقدار نہیں

9 دسمبر 2016

ہالینڈ کے اسلام مخالف رہنما گیئرٹ ولڈرز کو نسلی امتیاز اور مراکشی شہریوں کی توہین کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب تین ماہ بعد ہالینڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2U0w3
Niederlande Prozess Geert Wilders
تصویر: picture-alliance/dpa/R. van Lonkhuijsen

ہالینڈ کی ایک عدالت کے جج  ہینڈرک اسٹین ہوئس کے مطابق قصور وار قرار دیے جانے کے باوجود گیئرٹ ولڈرز کو کوئی سزا نہیں دی جا رہی۔ جج کے بقول جمہوری طور پر کسی منتخب رکن کو قصو وار قرار دینا کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2014ء میں اپنے خطاب کے دوران ولڈرز نے آزادی اظہار کی حدود کو پار کیا ہے اور اس طرح وہ اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سماعت کے دوران گیئرٹ ولڈرز کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔

Niederlande PVV-Mitgliedern protestieren in Unterstützung zu Geert Wilders
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Maat

 فریڈم پارٹی کے رہنما گیئرٹ ولڈرز کی عوامی سطح پر مقبولیت میں کافی اضافہ ہو چکا ہے اور اس مقدمے کے دوران ان کی شہرت اور بھی بڑھی ہے۔ اس مقدمے کی کارروائی سے قبل ہی ولڈرز کہہ چکے تھے کہ اگر انہیں مجرم قرار دے بھی دیا گیا تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ’’عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو، میں مراکشی شہریوں کے حوالے سے ہمیشہ سچ بولتا رہوں گا، مجھے کوئی جج، سیاستدان یا دہشت گرد اس کام سے نہیں روک سکتا۔‘‘

اسلام مخالف فریڈم پارٹی کے سربراہ پر یہ الزامات 2014ء میں لگائے گئے تھےجب ایک جلسے کے دوران ولڈرز نے اپنے حامیوں کو ہالینڈ میں رہائش پذیر مراکشی نژاد شہریوں کے خلاف نعرے بازی پر اکسایا تھا۔ اس موقع پر یہ لوگ نعرے لگا رہے تھے، ’’ہالینڈ میں مراکشی نژاد لوگوں کو کم کیا جانا چاہیں‘‘۔

ولڈرز کو اسے سے قبل بھی مختلف قسم کے مقدمات کا سانما رہا ہے، ان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا، غیر یورپی باشندوں سے تعصب ساتھ ساتھ اسلام اور نازی ازم کا موازنہ کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلام کو ایک فاشسٹ مذہب قرار دیتے ہوئے قرآن اور ہٹلرکی کتاب میری جدوجہد کو ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والی کتاب بھی کہا تھا۔سن 2004 میں قائم ہونے والی گیئرٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی (PW) ہالینڈ کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔