1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھوڑے کا گوشت غریبوں کے لیے، جرمنی میں بحث

Atif Baloch24 فروری 2013

جرمنی میں بعض سیاستدانوں نے کہا ہے کہ غلط برانڈنگ کی وجہ سے مارکیٹوں سے ہٹائے گئے گھوڑے کے گوشت کو غریبوں میں تقسیم کر دیا جانا چاہیے۔ اس تجویز نے سیاسی حلقوں میں بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا ایسا کرنا مناسب یا قانونی ہو گا۔

https://p.dw.com/p/17ko4
تصویر: Reuters

جرمنی کی حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رکن ہارٹ وِگ فشر نے ہفتے کو روزنامہ بِلڈ کے ساتھ گفتگو میں یہ یقین ظاہر کیا ہے کہ گھوڑے کے گوشت کی غذائی مصنوعات ضائع نہیں کی جانی چاہیئں۔

انہوں نے اپنے مؤقف کو مضبوط بنانے کے لیے گھوڑے کے گوشت کا لازانیا کھایا اور بِلڈ اخبار نے اس موقع پر ان کی ویڈیو اور تصاویر بھی بنائیں۔ اس موقع پر فشر کا کہنا تھا: ’’یہ اچھا ہے۔ میں نہیں بتا سکتا ہے کہ اس میں اور دوسرے کسی لازانیا میں کیا فرق ہے۔‘‘

تجویز

فشر نے تجویز دی ہے کہ جن غذائی مصنوعات میں گھوڑے کے گوشت کی موجودگی کا پتہ چلا ہے انہیں ضائع کرنے کے بجائے امدادی تنظیموں کو دے دیا جانا چاہیے۔

جرمن ڈویلپمنٹ منسٹر ڈرک نیبیل نے بھی فشر کی اس تجویز کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے یہ اچھا طریقہ ہے۔

نیبیل نے مزید کہا: ’’دنیا میں آٹھ سو ملین سے زائد افراد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ جرمنی میں بھی بدقسمتی سے ایسے لوگ ہیں جنہیں مالی مسائل کا سامنا ہے، خوراک کے حصول کے لیے بھی ... میرے خیال میں ہم یہاں جرمنی میں کسی اچھی خوراک کو ضائع نہیں کر سکتے۔‘‘

Museumsdirektor Hartwig Fischer Flash-Galerie
ہارٹ وِگ فشرتصویر: picture-alliance/dpa

بحث

سماجی امور کی جرمن وزیر ارسلا فان ڈیر لائن نے اس تجویز کو ’غیرمعقول‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’غریب ہوں یا امیر، سب کو یہ جاننے کا حق ہے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔ اور یہ (کھانا) بے عیب ہونا چاہیے۔‘‘

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمنی میں دیگر سیاستدانوں نے بھی اس خیال کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ ایس پی ڈی پارٹی کی جنرل سیکرٹری آندریا ناہلیس کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا غیر انسانی فعل ہو گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ کم آمدنی والے لوگوں کی توہین کے مترادف ہو گا۔

گرین پارٹی کی رہنما ریناٹے کُوناسٹ کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کرنے کے بجائے’ہم سب کے لیے اچھی کوالٹی چاہتے ہیں۔‘

وزارتِ برائے امورِ صارفین کے ترجمان ہولگر آئیخیلے کا کہنا ہے کہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ بحث بے معنی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ان مصنوعات کو آگے بڑھانا قطعی ناممکن ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ تمام اجزاء کے مقام کا پتہ نہ ہو تو غذائی مصنوعات کا آگے انتقال غیرقانونی ہے۔

ng/ab (AFP, dpa)