1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

’گھر والوں کے لیے کمانا ہے، ہر صورت اسپین جاؤں گا‘

شمشیر حیدر
20 فروری 2017

آدم کے کئی ساتھی اسپین کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس کی یورپ پہنچنے کی کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب وہ بیس فٹ سے بھی اونچی باڑ عبور کرتے ہوئے زخمی ہو کر گر پڑا۔

https://p.dw.com/p/2Xupm
Grenzübergang Marocco Spanien afrikanische Migranten sitzen auf dem Grenzzaun in Ceuta
تصویر: REUTERS/M. Martin

سترہ سالہ آدم کے سر پر شدید چوٹ آئی لیکن مراکش کے ایک ہسپتال کے بستر پر لیٹا زخمی آدم یورپی حدود میں پہنچنے کے اپنے خواب کی تکمیل کے لیے اب بھی اتنا ہی پر عزم ہے جتنا وہ زخمی ہونے سے پہلے تھا۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

مراکشی شہر تطوان کے ایک ہسپتال میں زیر علاج زخمی آدم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’آدھی رات کا وقت تھا اور میں بہت ڈرا ہوا تھا۔ جب میں نے باڑ پھلانگنے کی کوشش کی تو میرا سر کسی چیز سے اتنی زور سے ٹکرایا کہ میں بے ہوش کر زمین پر گر پڑا۔ مجھے اپنے اہل خانہ کے لیے روزگار کمانا ہے اس لیے میں یورپ جانے کے لیے جو بھی ممکن ہوا کروں گا۔‘‘

اس کے سر پر بندھی خون آلود پٹی، خار دار تاروں کے باعث تار تار ہو چکی قمیض اور صدمہ زدہ چہرہ اس صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جس سے زیادہ تر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کئی مہینوں تک سفر کرنے کے بعد مراکش اور ہسپانوی علاقے سییوُٹا کی سرحد تک پہنچنتے ہیں۔

جمہوریہ گنی سے تعلق رکھنے والے آدم کا کہنا تھا، ’’میں پچھلے برس جولائی کے مہینے میں مالی اور الجزائر سے ہوتا ہوا مراکش پہنچا تھا۔‘‘ مراکشی دارالحکومت رباط کے گرد و نواح میں کئی مہینے گزارنے کے بعد آخرکار وہ ہسپانوی سرحد کے قریب واقع جنگل میں پہنچا جہاں بنیادی انسانی ضروریات تک دستیاب نہیں ہیں۔ آدم نے اس جنگل میں گزرے وقت کے بارے میں بتایا، ’’بہت مشکل وقت تھا۔ رات کے وقت سردی بھی بہت بڑھ جاتی تھی اور بعض اوقات تو دو دو دن تک کھانے کے لیے کچھ دستیاب نہیں ہوتا تھا۔‘‘

بہتر مستقبل کی خواہش میں اسپین کا رخ کرنے والوں میں آدم اکیلا نہیں ہے۔ اس جیسے کئی دیگر تارکین وطن زخمی ہونے کے بعد ہسپانوی سرحد کے قریب واقع مراکشی قصبوں کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے بارہا سرحد عبور کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ان کی راہ میں صرف ایک بیس فٹ بلند دیوار ہی حائل نہیں ہے بلکہ انہیں مراکشی اور ہسپانوی سرحدی محافظوں سے بھی بچنا ہوتا ہے۔ اسماعیل نامی ایک تارک وطن کا کہنا تھا، ’’ہم نے چار یا پانچ بار باڑ پھلانگنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ لیکن میں اپنے خاندان کی مدد کرنا چاہتا ہوں، اس لیے میں اسپین پہنچنے کی کوشش جاری رکھوں گا۔‘‘

’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے