1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوئتھے انسٹی ٹیوٹ: ’برصغیر میں غیر جانبدار پلیٹ فارم‘

11 اکتوبر 2011

جرمن ثقافتی مرکز گوئتھے انسٹیٹیوٹ نے گزشتہ چھ دہائیوں میں برصغیر پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ بھارت میں اس کے ایک سابق عہدے دار کے مطابق اس ادارے نے خطے میں غیرجانبدار پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12qBX
تصویر: picture-alliance/ dpa

برصغیر میں گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران گوئتھے انسٹی ٹیوٹ کی متعدد شاخیں قائم کی گئیں۔ بھارت میں یہ ادارہ ’ماکس میولر بھوّن‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جہاں جہاں اس کی شاخیں قائم ہے، یہ ادارہ ان شہروں کا لازمی جزو بن چکا ہے۔

وہاں نہ صرف مختلف ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں بلکہ لوگ جرمن زبان سیکھنے کے لیے بھی ان مراکز کا رُخ کرتے ہیں۔

کولکتہ میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے ایک سابق پروگرام آفیسر سبرامنیئن ویناکاٹیش رامان (راجو رامان) ریٹائرمنٹ تک اپنے علاقے میں اس ادارے کی پہچان رہے ہیں۔ وہ اس ادارے کو ثقافتی سرگرمیوں کے لیے غیرجانبدار پلیٹ قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے اس کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کے حوالے سے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا: ’’میں سجھتا ہوں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ کی موجودگی نے ثقافتی زندگی اور زبان کی تدریس پر بھارت میں ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر پر وسیع تر اثرات چھوڑے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب مخصوص پابندیوں کی وجہ سے کچھ ادارے بعض پروگرام نہیں کر پاتے تو ایسے میں گوئتھے انسٹی ٹیوٹ نے ایک غیرجانبدار پلیٹ فارم فراہم کیا، جہاں ہر کوئی اپنا نظریہ بیان کر سکتا ہے۔‘‘

گوئتھے انسٹی ٹیوٹ کی وساطت سے جرمنی کے کئی اداکار، موسیقار اور پرفارمر بھارت کے دورے کر چکے ہیں۔ ان رابطوں کی بدولت باہمی دلچسپی کے کئی منصوبے شروع ہوئے۔

گوئتھے انسٹیٹیوٹ جرمن زبان کے فروغ کا پلیٹ فارم بھی ہے۔ بھارت میں فرانسیسی، روسی، ہسپانوی، جاپانی اور چینی زبان کے ساتھ سب سے زیادہ سیکھی جانے والی غیرملکی زبانوں میں جرمن زبان بھی شامل ہے۔

متعدد بھارتی ادارے بھی غیرملکی زبانوں کے کورسز کی پیش کش کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے گوئتھے انسٹی ٹیوٹ کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے راجو رامان کہتے ہیں: ’’جہاں تک جرمن زبان کی تعلیم کا سوال ہے، گوئتھے انسٹی ٹیوٹ کی بدولت بھارت میں اس کا معیار بہت بلند ہے۔‘‘

تاہم اس حوالے سے بعض مشکلات بھی درپیش ہیں۔ جرمن زبان سکھانے کے لیے اساتذہ کی تعداد ناکافی ہے۔ بہت سے اساتذہ جرمن ملٹی نیشنل کمپنیوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے راجو رامان کا کہتے ہیں: ’’یہ وہ پہلو ہے، جسے کسی حد تک نظر انداز کیا گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ کسی وقت نئے اساتذہ کی ضرورت پڑے گی، لیکن اب اس حوالے سے جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے۔

رپورٹ: سنجیو برمن / ندیم گِل

ادارت: افسر اعوان