1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کے پی کے ماڈل پولیس اسٹیشن، عورتوں کے لیے خواتین پولیس عملہ

دانش بابر، پشاور
16 دسمبر 2017

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے محکمہ پولیس میں جو اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں اُن میں سے ایک صوبے میں ماڈل پولیس اسٹیشنوں کا قیام بھی ہے۔ ان پولیس اسٹیشنوں میں خواتین کی شکایت سننے کے لیے خصوصی ڈیسک کا اجرا کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2pU1j
Frauen-Schalter in Polizeistationen in Peschawar, Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

شائستہ بی بی ( فرضی نام ) نے کچھ عرصہ قبل اپنے شوہر کے خلاف گھریلو جھگڑوں کے باعث رحیم آباد پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرائی تھی۔ بی بی کا موقف تھا کہ اُن کے شوہر اُن پر ظلم کرتے ہیں تاہم پولیس اسٹیشن میں موجود خواتین پولیس عملے نے اس کیس کو جلد ہی دونوں فریقین کی ملاقات اور باہمی راضی نامے سے حل کردیا۔

صوبے کے عوام کو تھانوں میں بہترین خدمات اور سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے اقوام متحدہ کے ادارے یواین ڈی پی  اور یورپی یونین کے باہمی اشتراک سے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس میں ابتدائی طور پر 62 تھانوں کو ماڈل پولیس اسٹیشن بنایا گیا۔ بہترین عمارت، تزئین و آرائش اور تربیت یافتہ عملے کے علاوہ ان ماڈل پولیس سینٹروں میں خواتین کے لئے خصوصی ڈیسک یا لیڈیز رپورٹنگ سینٹر کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جہاں پر زنانہ پولیس خواتین کی شکایات اور مسائل سنتی ہے۔

رحیم آباد پولیس سوات کے لیڈیز رپورٹنگ سینٹر میں خواتین کی شکایات سننے پر معمور لیڈی ہیڈ کانسٹیبل ستارہ زیبی کہتی ہیں کہ ماہانہ آٹھ سے دس خواتین اپنی شکایات لے کر اُن کے پاس آتی ہیں، جن میں اکثر گھریلو ناچاقی اور دوسرے تنازعات سے متعلق ہوتی ہیں۔ زیبی کے مطابق ماڈل پولیس اسٹیشن کے قائم ہونے کے بعد خواتین کا اعتماد پولیس پر بڑھ گیا ہے۔

Frauen-Schalter in Polizeistationen in Peschawar, Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

زیبی کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ چھوٹے نوعیت کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے، اس سلسلے میں وہ متاثرہ خواتین یا خاندان کو مصالحت کا مشورہ دیتی ہیں۔ تاہم سنگین نوعیت کی ایسی شکایات کو عدالت بھیج دیا جاتا ہے جن میں دونوں فریقین راضی نامہ کرنے کو تیار نہ ہوں۔

ڈی ایس پی مینگورہ حبیب اللہ کے مطابق 2013 میں ماڈل پولیس اسٹیشن کے قیام سے نہ صرف تھانوں پرعوام کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے بلکہ وُومن ڈیسک کی وجہ سے خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اب وہ کھل کر اپنی شکایت بیان کر سکتی ہیں۔

 حبیب اللہ کے بقول، ’’پولیس تھانوں میں زنانہ ڈیسک کے قیام کے بعد اب وہ خواتین بھی آسانی کے ساتھ اپنی شکایات پولیس اسٹیشن لےکر آسکتی ہیں جو وہ پہلے یہاں پر مرد تفتیشی عملے کے سامنے بیان کرنے سے کتراتی تھیں۔‘‘

Frauen-Schalter in Polizeistationen in Peschawar, Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

پشاور شہر میں گوکہ اکثر تھانوں کو ماڈل پولیس اسٹیشنوں میں تبدیل کرلیا گیا ہے تاہم پشتخرہ پولیس اسٹیشن کو ابھی تک ماڈل پولیس اسٹیشن کا درجہ نہیں دیا گیا۔ خواتین سے متعلق مقدمات اور شکایات کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پشتخرہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او سب انسپکٹر اعجازاللہ خان کا کہنا تھا کہ ان کے تھانے میں خواتین کے لئے کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے۔

محّرر پشتخرہ پولیس اسٹیشن عیسیٰ خان بتاتے ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیس، مختلف اصلاحات اور تربیتی پروگرام متعارف ہونے کے بعد ملک کی بہترین پولیس کہلاتی ہے تاہم ایک پشتون معاشرے کی وجہ سے اکثر خواتین تھانہ جانے سے اجتناب کرتی ہیں کیونکہ یہاں پھر ان کو مردوں ہی کے سامنے بیانات ریکارڈ کرنے ہوتے ہیں۔ عیسیٰ خان کی رائے میں صوبے کے تمام پولیس اسٹیشنوں میں خواتین کے لئے الگ ڈیسک ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اُن کی شکایات کا ازالہ بھی ایک اچھے دوستانہ ماحول میں کیا جا سکے۔