کینیاٹا پر لگے الزامات کے شواہد ناکافی
8 اکتوبر 2014کینیاٹا آج دی ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں پیش ہوئے جہاں ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ اس موقع پر کینیاٹا کے وکلاء نے کہا کہ استغاثہ کے دلائل زائل ہو گئے ہیں اور کینیا کے صدر کے خلاف جنگی جرائم کے الزام سے متعلق مقدمے کو دوبارہ سے شروع نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب پروسیکیوٹرز نے اس امر کو تسلیم کیا کہ اُن کے پاس سردست کافی شواہد موجود نہیں ہیں جن کی بنا پر اوھورا کینیاٹا پر 2007ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں تشدد پر اکسانے، قتل کی منصوبہ بندی کرنے اور کمیشن لینے جیسے سنگین جرائم کے الزامات ثابت ہو سکیں اور ان کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ سنایا جا سکے۔ 2007ء میں کینیا میں خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس میں 1000 سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اُس وقت ملک کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کے بعد پھیلنے والی بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کے شکار قریب چھ لاکھ افراد گھر بار سے محرومی پر مجبور کر دیے گئے تھے۔
تاہم دی ہیگ کے جنگی جرائم کے ٹریبیونل میں استغاثہ نے کینیاٹا کی سربراہی والی کینیا کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ کینیاٹا کو جن الزامات کا سامنا ہے، وہ ان سے متعلق ممکنہ شواہد مہیا نہیں کر رہی اور اس طرح تفتیشی کارروائی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ ان شواہد میں مثال کے طور پر کینیاٹا کی ٹیلی فون کالز کی ریکارڈنگ، ٹیکسوں میں دھاندلی سے متعلق شواہد اور بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔
ادھر کینیاٹا کے وکیل صفائی اسٹیون کے نے ججوں کے ایک تین رکنی پینل کو بیان دیتے ہوئے کہا، ’’یہ کیس اب ناکام ہو گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ کے لیے بھی اس عدالتی کارروائی کے جاری رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اگر پروسیکیوٹر مداخلت نہیں کرتا تو کیس ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
کینیاٹا کے خلاف دی ہیگ کی عدالت میں مقدمہ چلانے کے عمل میں جس طرح کی رکاوٹیں پیش آئی ہیں، انہوں نے اس بین الاقوامی عدالت کے معتبر اور مؤثر ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ دی ہیگ کا یہ ٹریبیونل دنیا میں جنگی جرائم کی پہلی مستقل عدالت ہے۔ تاہم اس کی کارروائیوں پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ایک ایسی عدالت اگر کسی سربراہ مملکت پر لگے سنگین جرائم کے الزامات کے شواہد اکٹھا کرنے کے لیے اسی کی حکومت سے تعاون اور مدد طلب کرتی رہے گی، تو کسی بھی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل کس حد تک مؤثر ہو گا، یہ ایک کھلا سوال ہے؟ اس طرح دی ہیگ کی جنگی جرائم کی عدالت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔
کینیا کے اٹارنی جنرل نے کورٹ سے منگل کو ایک سماعت کے دوران کہا تھا کہ اسثغاثہ کی طرف سے شواہد کے لیے دیے گئے دلائل اتنے مفصل اور جامع نہیں ہیں کہ ان کی بنیاد پر کینیاٹا کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے۔