کیل یا مہاسے کو مسَل دیا جائے یا نہیں؟ یہ ہے سوال
22 ستمبر 2015اس صورتحال میں سب پہلا سوال جو کسی کے ذہن میں ابھر سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کیل کو مسل دیا جائے یا نہیں؟ جرمنی میں جلد کے ڈاکٹروں کی ایک ایسوسی ایشن سے وابستہ ڈاکٹر ہانس گیورگ ڈاؤور اس صورتحال کو نازک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیل ہا مہاسے کو مسلنا بہتر نہیں، ’’بطور ماہر جِلد میں یہ کہوں گا کہ کیل کو مت مسلا جائے جیسا کہ عام لوگ اس کو فوری طور پر چہرے سے غائب کرنے کے لیے مسل دیتے ہیں‘‘۔
جِلدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ہانس سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ چہرے پر کسی بدنما کیل نکل آنے کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ ملنے میں ہچکچاتے ہیں، اس لیے وہ فوری طور پر خود علاجی شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کہ کوئی ان بدنما دانوں کے خاتمے کے لیے انہیں مسل دے، اس کے پاس کچھ اور راستے بھی ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ہانس کے بقول، ’’کیل کو مسلنے سے جلد کے اندر خلا پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ خبردار کرتے ہیں کہ یوں پیپ سے نکلنے والا بیکٹریا جلد کے اندر تک سوزش پیدا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر ہانس علاج بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چہرے کے متاثرہ حصے کو پہلے جراثیم کش مواد سے اچھی طرح صاف کیا جائے اور پھر ایک باریک سوئی سے اسے پنکچر کر کے اس سے پیپ نکال لی جائے۔ وہ زور دیتے ہیں کہ کیل کو مسلنا درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر ہانس کا مشورہ ہے کہ جن لوگوں کی جلد چکنی ہے، وہ کاغذی رومال سے کیل کے اردگرد کا حصہ پکڑ کر آسانی کے ساتھ یہ چھوٹا سا آپریشن سرانجام دے سکتے ہیں۔ تاہم یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس آپریشن کے بعد متاثرہ جلد کو فوری طور پر جراثیم کش مواد سے صاف کر لیا جائے۔
ماہر جلد ڈاکٹر ہانس کا کہنا ہے کہ کیلوں کی وجہ سے جن لوگوں کی روزمرہ زندگی متاثر نہیں ہوتی ہے اور فوری طور پر اس کا خاتمہ نہیں چاہتے، وہ بھی زِنک یا ٹوتھ پیسٹ کے استعمال سے اس سے جلد چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔