1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یہ پابندیاں ایرانی صدر کے دورہ عراق کا صلہ ہے؟

4 مارچ 2008

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا تاریخی دورہ عراق کے مکمل ہوتے ہی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے نئی قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔ صدر بش کو خوش ہونا چاہیے کہ اس مرتبہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف قرارداد میں روس اور چین نے بھی ان کا ساتھ دیا۔

https://p.dw.com/p/DYEI
تصویر: AP


ایرانی صدر نے اپنے تاریخی دورہ عراق کے دوران دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور دونوں ملکوںے کے مابیں باہمی اشتراک کے فروغ پر زرو دیا۔ اگر عراق ایرانی سیاسی خواہشات پر عمل کرنے والی تہران کی ہمنوا ریاست بن گیا تو ان تمام حلقوں کی سوچ مسلمہ ہو جائے گی جو عراق میں جنگ کو لا حاصل کوشش سمجھتے ہیں۔ امریکہ کو احمدی نژاد کا یہ دورہ کچھ نا گوار گزرا۔ شاید اسی وجہ سے واشنگٹن نے تیسری مرتبہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف قرارداد میں مذید سختی کا مطالبہ کیا ۔

ویسے تو ایران کے خلاف اس نئی قرارداد اور احمدی نژاد کے حالیہ دور ے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو تب بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہوتے ۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جاری چپقلش میں دونوں ممالک کے پاس کچھ ایسے نکات ہیں کہ جن کی بنیاد پر کسی بھی سمت میں پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔

ایرانی صدر کے تاریخی دورہ بغداد نے ثابت کر دیا کہ ایران اس خطے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اگر امریکہ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تو وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھے گا۔ ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد میں ایک رکن کا اپنی رائے محفوظ رکھنے کا فیصلہ اس امر کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن سلامتی کونسل کی ان پابندیوں کو مذید سخت بنانے میں کا میاب رہا ہے جن کا فیصلہ بہت پہلے کیا گیا تھا اور اسے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تہران کے مسلسل انکار کے خلاف ایک ٹھوس پیش رفت کی حیثیت حاصل ہے۔

اس سال کے اوائل میں ہی اس بات کا فیصلہ ہو چکا تھا کہ ایران کے خلاف قرارداد پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے خیال میں اگر ایران پر صرف حقیقی پابندیاں ہی عائد کی گئیں تو وہ ایران کو روک نہیں سکیں گی ۔ اسی وجہ سے اس مرتبہ اشخاص اور کمپنیوں پر بھی پابندی بھی اس میں مددگار ثابت ہونگی۔ لیکن اس بات پر بھی یقین کرنا نا ممکن ہے کہ ایران ان اضافی پابندیوں کی وجہ سے اپنا ایٹمی پروگرام روک دے۔ جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ایرانی قیادت اس نئی قرارداد کی منظوری سے متاثر نہیں ہو گی۔

اس سے قطع نظر کہ عالمی برادری ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے ۔ ایران کا موقف بالکل صاف اور واضع ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے اور یورینیم کی افزودگی ایران کا حق ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے مخالفین کو اس کی وضاحت طلب کرنے پر مجبور کیا ۔ ایٹمی عدم پھیلا
ایرانی صدر نے اپنے تاریخی دورہ عراق کے دوران دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور دونوں ملکوںے کے مابیں باہمی اشتراک کے فروغ پر زرو دیا۔ اگر عراق ایرانی سیاسی خواہشات پر عمل کرنے والی تہران کی ہمنوا ریاست بن گیا تو ان تمام حلقوں کی سوچ مسلمہ ہو جائے گی جو عراق میں جنگ کو لا حاصل کوشش سمجھتے ہیں۔ امریکہ کو احمدی نژاد کا یہ دورہ کچھ نا گوار گزرا۔ شاید اسی وجہ سے واشنگٹن نے تیسری مرتبہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف قرارداد میں مذید سختی کا مطالبہ کیا ۔

ویسے تو ایران کے خلاف اس نئی قرارداد اور احمدی نژاد کے حالیہ دور ے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو تب بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہوتے ۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جاری چپقلش میں دونوں ممالک کے پاس کچھ ایسے نکات ہیں کہ جن کی بنیاد پر کسی بھی سمت میں پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔

ایرانی صدر کے تاریخی دورہ بغداد نے ثابت کر دیا کہ ایران اس خطے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اگر امریکہ نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تو وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھے گا۔ ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد میں ایک رکن کا اپنی رائے محفوظ رکھنے کا فیصلہ اس امر کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن سلامتی کونسل کی ان پابندیوں کو مذید سخت بنانے میں کا میاب رہا ہے جن کا فیصلہ بہت پہلے کیا گیا تھا اور اسے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تہران کے مسلسل انکار کے خلاف ایک ٹھوس پیش رفت کی حیثیت حاصل ہے۔

اس سال کے اوائل میں ہی اس بات کا فیصلہ ہو چکا تھا کہ ایران کے خلاف قرارداد پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے خیال میں اگر ایران پر صرف حقیقی پابندیاں ہی عائد کی گئیں تو وہ ایران کو روک نہیں سکیں گی ۔ اسی وجہ سے اس مرتبہ اشخاص اور کمپنیوں پر بھی پابندی بھی اس میں مددگار ثابت ہونگی۔ لیکن اس بات پر بھی یقین کرنا نا ممکن ہے کہ ایران ان اضافی پابندیوں کی وجہ سے اپنا ایٹمی پروگرام روک دے۔ جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ایرانی قیادت اس نئی قرارداد کی منظوری سے متاثر نہیں ہو گی۔

اس سے قطع نظر کہ عالمی برادری ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے ۔ ایران کا موقف بالکل صاف اور واضع ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے اور یورینیم کی افزودگی ایران کا حق ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے مخالفین کو اس کی وضاحت طلب کرنے پر مجبور کیا ۔ ایٹمی عدم پھیلاو کے معاہدے پر دستخط کرنے والے ملک کی حیثیت سے ایران یورینیم کی افزودگی کر سکتا ہے۔ جب تک اس کے خلاف اس معاہدے کی خلاف ورزی ثابت نہیں ہو جاتی تب تک اس کے خلاف کوئی پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی۔ اگر چہ اب تک ایران کے بارے میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کئے جانے کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی بھی ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں۔