1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا کراچی پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے؟

22 جنوری 2018

کراچی میں گزشتہ صرف 10 روز کے دوران تین نوجوانوں کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت نے شہر میں پولیس کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ مبصرین کے مطابق پولیس کی طرف سے یہ تمام ماورائے عدالت قتل ہیں۔

https://p.dw.com/p/2rImx
Unruhen in Karachi Pakistan
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے مرنے والے انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے کراچی پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے مقدمہ کاؤنٹر ٹیریرازم ڈیپارٹمنٹ یا کرائم برانچ منتقل کرنے کی درخواست کردی ہے۔ اشتیاق احمد کے مطابق میڈیا پر شور مچانے پر انہیں پولیس نے واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے بیٹے کا قتل حادثہ نہیں بلکہ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے سینیئر افسران سے مخاصمت کا نتیجہ ہے۔

Pakistan Naqeebullah wurde von Polizisten getötet
نقیب کے قتل کی تحقیقات کرنے والی تین رکنی اعلٰی سطحی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے نقیب کی ہلاکت کو جعلی مقابلے میں کیا گیا قتل قرار دیے دیا ہے۔تصویر: Meraj Udin, Sanna Ijaz

اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ ان کے بیٹیے کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے اور سات روز گزرنے کے باوجود تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لہٰذا انہوں نے یہ مقدمہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی یا آفتاب پٹھان کو منتقل کرنے کی درخواست دی ہے۔

دوسری طرف پولیس کا موقف ہے کہ انتظار احمد کی ہلاکت کوئی سوچی سمجھی واردات نہیں تھی مگر اس کے باوجود متعلقہ تھانیدار سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو قتل کے الزام میں اس واقعے کے 24 گھنٹے کے اندر ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

13 جنوری کو وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ کو مبینہ مقابلے میں مارنے والے کراچی پولیس کے سب سے با اثر مگر متنازعہ ترین افسر ایس ایس پی راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔ نقیب کے قتل کی تحقیقات کرنے والی تین رکنی اعلٰی سطحی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے نقیب کی ہلاکت کو جعلی مقابلے میں کیا گیا قتل قرار دیے دیا ہے۔ ثنا اللہ عباسی نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’جائے وقوعہ بہت مشکوک ہے۔ راؤ انوار نے متوفی نقیب کے خلاف جو ایف آئی آر پیش کی، جیل میں قید نقیب کے جن ساتھیوں کی نشاندہی کی انہوں نے اس کی تردید کی ہے۔ لہٰذا اب تک کے شواہد سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مقابلہ جعلی ہے۔‘‘

ڈاکٹر ثنااللہ عباسی کہتے ہیں، ’’مقدمہ کے انداج کے لیے ورثا کا انتظار ہے تاہم واردات میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو فوری عہدوں سے ہٹانے اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کردی ہے تاکہ مقدمے کی شفاف تفتیش ہوسکے اور گواہان آزادنہ طور پر پیش ہوکر گواہی دے سکیں جبکہ ملزمان کے بیرون ملک فرار کا خدشہ بھی موجود ہے۔‘‘

Pakistan, Stammestreffen in Karachi gegen die Tötung von Naqeeb Ullah Mehsud durch die Polizei
قبائلی عمائدین نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف کراچی میں منعقد جرگے سے خطاب کررہے ہیں۔تصویر: DW/R.Saeed

تیسرا واقعہ شہر کی سب سے مصروف شاہراہ پر ہفتہ 20 جنوری کو صبح کے وقت پیش آیا جب کار سوار ملزمان کا تعاقب کرتی پولیس کی اندھی گولیوں کا شکار مخالف سمت سے آنے والے رکشہ سوار بن گئے۔ ایک رکشہ سوار زخمی ہوا جبکہ دوسرا مقصود نامی شخص جاں بحق ہوگیا۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے مقصود کی آئندہ ماہ شادی تھی اور گھر میں تیاریاں جاری تھیں۔

پہلے دو واقعات کے برخلاف مقصود کے قتل میں پولیس کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مقصود کی میت سرگودھا منتقل ہوئی اور پولیس نے اس واقعہ کو پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کا نتیجہ ظاہر کر کے قتل ملزمان کے سرتھوپ دیا۔

Pakistan, Dr. Sanaullah Abbasi, Sindh Polizei
اب تک کے شواہد سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مقابلہ جعلی ہے، نقیب اللہ کے قتل کی تفتیش کرنے والے ڈاکٹر ثنا اللہ عباسیتصویر: DW/R.Saeed

مبصرین کہتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے طرح پاکستان میں پولیس ہتھیاروں اور آلات سے کسی حد تک لیس تو ہوئی ہے مگر تربیبت کا فقدان بنیادی فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں، ’’پاکستان میں پولیس کو گولی چلانا تو سکھایا جاتا ہے لیکن ابھی یہ سکھانا باقی ہے کہ گولی کب، کہاں اور کیسے چلانی ہے اور عوامی مقامات اور ہجوم میں کسی صورت گولی نہیں چلانی۔ اوپر سے دہشتگردوں کی جانب سے کیے گئے حملوں سے بھی پولیس اہلکار خوفزدہ ہیں لہذا وہ دفاعی حکمت عملی کی بجائے خود پہلے حملہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ پولیس کے تربیتی نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ پولیس محافظ کی بجائے شہریوں کی قاتل نہ بنے۔‘‘