1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب اور ایران سے تعلقات اور پاکستان

عبدالستار، اسلام آباد
23 فروری 2018

پاکستان میں کئی سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں نے وزیرِ دفاع خرم دستگیر کے اس بیان کو حقائق کے منافی قرار دیا ہے کہ اسلام آباد نے ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات میں ایک باریک توازن قائم رکھا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/2tE73
Khurram Dastgir Khan
تصویر: Aureliusz Marek Pędziwol

خرم دستگیر نے یہ بات جمعرات 22 فروری کو اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی ۔ وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں جاری فرقہ وارنہ کشمکش سے واقف ہے اور اس کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔
لیکن کئی سیاسی ماہرین اور منتخب نمائندوں کے خیال میں وزیرِ دفاع کا یہ بیان حقائق چھپانے کے مترادف ہے۔ اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کی ایوان بال یا سینیٹ کے رکن عثمان کاکڑ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ بیان کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ فوج ہم نے سعودی عرب بھیجی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے توازن قائم کیا ہے۔ کونسا توازن قائم کیا ہے؟ کہاں ہے وہ توازن؟ کیا ہم نے ایران کی محبت میں سعودی عرب فوج بھیجی ہے؟ جب پارلیمنٹ نے واضح کر دیا تھا کہ سعودی عرب فوج نہیں بھیجنی کیوں کہ اس کی لڑائی یمن میں چل رہی ہے اور ہمیں کسی بھی لڑائی کا حصہ نہیں بننا، لیکن اس کے باوجود ہم نے فوج بھیجی کیونکہ اس ملک میں پارلیمنٹ اور سویلین کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ سارے اختیارات جی ایچ کیو کے پاس ہیں اور ہماری پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم سے ایران، افغانستان اور بھارت سب ناراض ہیں۔ صرف چین ہم سے راضی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ ہم اس کے صوبے کی طرح کام کر رہے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ایران نے پہلے کوشش کی کہ پاکستان ان سے معاملات بہتر کرے جب اسلام آباد نے ایسا نہیں کیا تو اس نے بھی بھارت سے قربت بڑھانا شروع کر دی۔ افغانستان بھی بھارت کے قریب ہے۔ امریکا بھی ہم سے ناراض ہے۔ یہ پالیسی تباہ کن ہے۔ ہمیں خطے کے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے چاہییں ورنہ ہم سفارتی تنہائی کا شکار ہوجائیں گے جس سے ہمارے مسائل م‍زید بڑھیں گے۔‘‘
اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر امان میمن بھی عثمان کاکڑ کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں: ’’جب یمن کا مسئلہ پارلیمنٹ میں آیا تھا تو ہم نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ پارلیمنٹ میں سیاست دانوں نے ہمیشہ اس بات کی مخالفت کی کہ ہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان چلنے والی سرد جنگ کا حصہ بنیں لیکن اب جو ہم نے فوج سعودی عرب بھیجی ہے اور جو ہم کئی برسوں سے ایران پاکستان پائپ لائن بنانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے، اس تما م صورتِ حال سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ہمارا جھکاؤ ریاض کی طرف ہے۔ یہ بات ہمارے لیے اچھی نہیں ہے کیونکہ ایران ہمارا پڑوسی ہے اور ہمارے اس فیصلے سے ناراض ہو کر وہ اب بھارت سے قربت بڑھا رہا ہے۔‘‘
لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان اپنے قومی مفادات میں کام کر رہا ہے۔ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر جسپال کے خیال میں اسلام آباد نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں توازن قائم کیا ہوا ہے: ’’لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے سعودی عرب فوج بھیج دی ہے، جو میرے خیال میں تربیتی مقاصد کے لیے ہے لیکن دوسری طرف ایران کے دس سے بارہ فوجی افسران بھی یہاں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ ایران سے کم افسران یہاں تربیت لیتے ہیں اور سعودی عرب سے بہت زیادہ لوگ تربیت کے لیے یہاں آتے ہیں، خصوصاﹰ سعودی نیوی کے لوگ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ ریاض نے کئی مواقع پر ہماری مدد کی ہے۔ تیل ہمیں کم قیمت پر دیا یا بعد میں ادائیگی کی سہولت دی۔ ہمارے ہزاروں بلکہ لاکھوں مزودر وہاں کام کرتے ہیں۔ تو میرے خیال میں تعلقات کی نوعیت کو بھی سمجھنا چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’ہم سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم سعودی عرب کے قریب ہیں لیکن ایران نے جو بھارت کو چاہ بہار کی بندرگاہ دی ہے، اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ایران ایک خودمختار ملک ہے اور وہ جس سے چاہے اور جیسے چاہے تعلقات رکھ سکتا ہے۔ تہران کو یہ پورا حق ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھے، اسی طرح اسلام آباد کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کی روشنی میں خارجہ پالیسی بنائے اور اس پر عمل کرے۔‘‘

Pakistan Soldaten in Tatta Pani
’فوج ہم نے سعودی عرب بھیجی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے توازن قائم کیا ہے‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید