1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان شدید آبی قلت کا شکار ہونے جارہا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
6 فروری 2017

پاکستان میں ان دنوں بارشوں کا دور دورہ ہے لیکن آبی ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر ملک میں ہنگامی بنیادوں پر آبی ذخائر نہ بنائے گئے تو آنے والے عشروں میں ملک پانی کی شدید قلت کا شکار ہوسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2X4S5
Pakistan Dorf Khushab in der Punjab Provinz Wasserversorgung
تصویر: DW/T. Shehzad

اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار میں مقررین نے کہا کہ سرکار کو مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ہے اور ثبوت کے طور پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں کوئی آبی پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔
سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے اس موقع پر کہا، ’’پاکستان میں کوئی آبی پالیسی نہیں ہے اور پالیسی بنانے والوں کا رویہ غیرحاضر زمینداروں کی طرح ہے۔اس رویے کی وجہ سے پانی پر جاگیرداروں کی اجارہ داری ہوگئی ہے اور غریب اپنے حصے سے محروم ہے۔ لہذا پانی کا مسئلہ پاکستان میں نوعیت کے لحاظ سے سیاسی ہے۔‘‘
بہاولپور میں آبی امور پر کام کرنے والے عرفان چوہدری سابق چیئرمین واپڈا کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پانی کا مسئلہ سیاسی بن گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ پاکستان میں پانی کے مسئلے پر سیاست کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے نئے آبی ذخائر نہیں بنائے جا سکتے۔ گزشتوں چار عشروں میں کسی بڑے آبی ذخیرے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں ہے جہاں بارش کا پیٹرن یکساں نہیں ہے۔ بہت کم وقت میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے۔ آبی ذخائر مناسب تعداد میں نہ ہونے کہ وجہ سے ہم اضافی پانی کو استعمال نہیں کرپاتے، جس کی وجہ سے بیس ملین ایکٹر فیٹ سے زائد پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ اگر ہم نے اتفاق رائے سے نئے ذخائر نہیں بنائے تو آنے والے عشروں میں ملک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرے گا کیونکہ ہمارے پاس صرف تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جو بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے بہت ہی نا کافی ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ملک کو شدید آبی قلت کا سامنا کرنا پرے گا، جس کی وجہ سے سیاسی کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے اور صوبوں کے درمیان مذید تلخیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘

Wasser in der Landwirtschaft IWMI International Water Management Institute
پلاننگ کمیشن کے ایک اہلکار کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباﹰ پچاسی آبی پراجیکٹس چل رہے ہیں جس میں بھاشا اور منڈا سمیت کئی چھوٹے بڑے ڈیم شامل ہیںتصویر: Jean-Phillipe Venot

ڈائریکٹر واٹر مینیجمنٹ ریسورس سینٹر، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، حامد شاہ نے اس مسئلے کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارانظامِ آبپاشی نو آبادتی دور کا ہے، جو بنیادی طور پر سال میں ایک فصل اگانے کے لیے تھا لیکن ہم نے تین تین اگانی شروع کر دیں۔جس سے پانی کا استعمال بڑھا۔ ٹیوب ویلز کے استعمال نے اس کو مزید پیچدہ بنایا۔ ملک میں زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے ہوتی جارہی ہے۔ انیس سو اکیاون میں فی کس پانی پانچ ہزار دوسو کیوبک میٹر تھا جو اب صرف آٹھ سو کیوبک میٹر رہ گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے اب کہیں جا کر واٹر پالیسی ڈرافٹ کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی توجہ میٹرو، اورنج بسوں اور سٹرکوں پر ہے۔ پانی جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ جس سے نہ صرف زراعت کو نقصان ہوگا بلکہ ملکی صنعت کو بھی دھچکا لگے گا۔‘‘
وفاقی حکومت کے پلاننگ کمیشن کے ایک عہدیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ واقعی ملک میں پانی کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اس عہدیدار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’گزشتہ گیارہ برسوں میں حکومتیں یہ ہی نہیں طے کر پائیں کہ آیا آبی پالیسی پلاننگ کمیشن کو بنانی ہے یا پھر وزارتِ پانی و بجلی کو۔ موجودہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ وزارتِ پانی و بجلی اس پالیسی کو بنائے گی۔ وزارت نے مجوزہ پالیسی کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔ جو مشترکہ مفادات کی کونسل کے پاس ہے۔ اب دیکھیے کہ اس کو حتمی شکل کب دی جاتی ہے۔ گو وزرات نے اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن کئی اداروں اور افراد نے یہ شکایات کی ہے کہ ان کے رائے نہیں لی گئی۔ یہاں تک کہ وہ ڈرافٹ پلاننگ کمیشن کو بھی نہیں دکھایا گیا، جو خود بھی ایک اسٹیک ہولڈر ہے۔ بغیر پالیسی کے تقریباﹰ پچاسی آبی پراجیکٹس چل رہے ہیں جس میں بھاشا اور منڈا سمیت کئی چھوٹے بڑے ڈیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نہروں کے توسیعی منصوبے بھی ہیں۔ کھارے پانی کو سمندر تک پہنچانے کے لیے دونہریں سندھ میں اور ایک بلوچستان میں بنائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ نوشہرہ میں تیہور نہر کو توسیعی دی جارہی ہے، جس سے تین ہزار ایکڑ زمین زیرِ کاشت آئے گی جب کہ بلوچستان میں بھی کچھی کینال بنائی جارہی ہے جو دو ہزار سترہ میں مکمل ہوجائے گی لیکن ایک جامع آبی پالیسی کے بغیر یہ سارے منصونے غیر مربوط اور بے ہنگم ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے سال میں بمشکل ایک یا دو اجلاس ہوتے ہیں ۔ لہذا ابھی تو دور دور تک حتمی واٹر پالیسی نظر نہیں آرہی۔ انتخابات کی وجہ سے بھی اس میں مزید تاخیر ہوگی۔‘‘

Überschwemmungen in Pakistan ARCHIVBILD 2011
آبی ذخائر مناسب تعداد میں نہ ہونے کہ وجہ سے بیس ملین ایکٹر فٹ سے زائد پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہےتصویر: dapd