1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مہاجرین کے لیے جرمن اقدار اپنانا لازمی کیا جا سکتا ہے؟

1 مارچ 2018

جرمن وزیر برائے مہاجرت و انضمام، ایدان ائزوگئز نے کہا ہے کہ عوامیت پسند جماعتیں مرکزی معاشرے میں شامل ہوکر عوام کا بٹوارا کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم ائزوگئز کے مطابق جرمنی میں مشترکہ روایات کا دفاع کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2tVIm
Miteinander in Vielfalt Aydan Özoguz
تصویر: DW/I. Aftab

مہاجرت اور انضمام کے معاملے پر جرمن عوام میں عموماﹰ مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک سال قبل جرمن تھنک ٹینک’فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن‘ کے ماہرین نے ایک تجویز پیش کی تھی جس کے رُو سے جرمن معاشرے میں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ برابری کی سطح پر رہ سکتے ہیں۔ جرمن دارالحُکومت برلن میں مہاجرت کے حوالے سے اس مجوزہ پالیسی پر ایک سال بعد نظر ثانی کی گئی۔

ایک پریس ریلیز کے مطابق فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن  کے ماہرین کے گروپ کی سربراہ اور وزیر برائے مہاجرت و انضمام ایدان ائزوگئز نے اس حوالے سے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ سال مہاجرت اور انضمام کی پالیسی کے لیے جو تجاویز پیش کی گئی تھیں ان کو’لائٹ بلڈ‘ یعنی رہنما اصول و ضوابط کا نام دیا گیا تھا۔ یہ ضوابط جرمنی میں رہنے والے 82 مِلین لوگوں کی رہنمائی کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔

ایک سال بعد ان مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ترک نژاد جرمن وزیر کا کہنا تھا،’’ یقیناﹰ کچھ غلط ہوا ہے جس کی وجہ سے آج عوامیت پسند جماعتیں دائیں جانب رہنے کے بجائے کے بجائے مرکزی معاشرے میں شامل ہوکر عوام کا بٹوارا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور جرمنی میں مشترکہ روایات کا دفاع بھی کریں گے۔‘‘

سن 2016ء میں شائع ہونے والے وفاقی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں  اٹھارہ اعشاریہ چھ ملین غیر ملکی مقیم ہیں۔ ماضی میں جرمن معاشرے میں غیر ملکیوں کے انضمام کے سلسلے میں قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی جانب سے ’لائٹ کُلٹؤر‘ کی تجویز کی حمایت کی جاتی رہی ہے۔’لائٹ کُلٹؤر‘ یا بنیادی ثقافت کا نظریہ یہ ہے کہ جرمن سماج میں جرمن روایات و اقدار کو ’غالب ثقافت‘ کی اہمیت حاصل ہوگی اور غیر ملکیوں کو جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے لیے جرمن روایات کو اپنانا ہوگا۔

تاہم ‘فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن’ کی تجاویز لائٹ کلٹؤر نظریے کے بالکل برعکس ہیں۔ جرمن تھنک ٹینک کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جرمنی میں پیدا ہونے والے غیر ملکی شہریوں کو جرمن قانون کے پابند رہتے ہوئے اپنی روایات کی پیروی کرتے رہنی چاہیے، کیونکہ ایک کثیر الثقافتی معاشرے کی یہی خوبصورتی ہے۔

اسی بین الثقافتی منصوبہ بندی کی سرگرم تنظیم ڈوئچے پلُس کے چئرمین فرہاد دلمغاری نے نئی مخلوط حکومت سے مطالبہ کیا کہ مہاجرین کے انضمام کی پالیسی پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مہاجرین اور انضمام کی نئی پالیسی تشکیل دینے سے قبل جرمنی میں مقیم غیر ملکیوں سے بات چیت کی جائے اور ان کے خدشات کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔

بعد ازاں ماہرین کے گروپ کی جانب سے تجویز پیش کی گئی کہ جرمنی میں مقیم غیرملکیوں کو جرمن شہریت مہیا کرنے میں تیزی برتی جانی چاہیے اور بلدیاتی انتخابات میں بھی ووٹ کا حق دیا جانا چاہیے۔ مہاجرت و انضمام کے ماہرین کا کہنا تھا کہ کاروباری منڈی اور روزگار کے مواقع میں بھی غیر ملکیوں کو برابر کا مواقع ملنے چاہیئیں کیونکہ جن ممالک کی کاروباری منڈیوں میں مختلف ممالک کے شہری کام کرتے ہیں ان کی اقتصادی ترقی کی شرح کافی زیادہ ہے۔