کیا عالمی سطح پر دہشت گردی پھیلتی جا رہی ہے؟
2 جنوری 2016تقریباً روزانہ ہی کہیں نہ کہیں سے کسی دہشت گردانہ حملے کی خبر سامنے آتی ہے۔ لیکن پیرس کی طرح کی خونریزی نہ ہونے کی وجہ سے یہ حملے ذرائع ابلاغ میں پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ان پر بہت کم ہی بات ہوتی ہے۔ تاہم اس سے یہ واضح ضرور ہوتا ہے کہ چھوٹے پیمانے کے دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے ماہر رولف ٹوپہوفن کہتے ہیں، ’’آج کل دہشت گردی کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ تک اور وہاں سے یورپ کے مرکز فرانس اور بیلجیم تک۔‘‘
سڈنی کے انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس ’آئی ای پی‘ کے مطابق 2014ء میں تقریباً ساڑھے بتیس ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بننے اور یہ تعداد 2013ء کے مقابلے میں اسّی فیصد زیادہ تھی۔ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں افغانستان، عراق، شام، نائیجریا اور پاکستان شامل ہیں۔ آئی ای پی دہشت گردی کی وضاحت کچھ اس طرح سے کرتا ہے، ’’غیر ریاستی عناصر کی جانب سے کسی بھی سیاسی، مذہبی، اقتصادی یا سماجی ہدف کو پورا کرنے کے لیے اگر خوف، جبر، تشدد یا دھمکیوں کا سہارا لیا جائے تو یہ عمل دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
اس ادارے کے مطابق اسلامک اسٹیٹ اور بوکو حرام کی ہی بات کی جائے تو ان ہلاکتوں میں سے نصف انہی دو عسکریت پسند گروپوں کے کھاتے میں جاتی ہیں۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں، جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کسی بھی حد سے گزر سکتی ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ نے عراق اور شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے جبکہ بوکو حرام نائجیریا، کیمرون، چاڈ اور نائجر میں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ آج کل دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیم ہے۔ یہ وہ تنظیم ہے، جواپنے راستے میں آنے والے ہر شخص کو قتل کر دیتی ہے، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
رولف ٹوپہوفن کے مطابق دہشت گردی میں اضافہ ان ریاستوں کی وجہ سے بھی ہو رہا ہے، جن کے نظام کو ایک طرح سے ناکام بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’’ایسے بہت سے ممالک ہیں، مشرقی افریقہ میں صومالیہ، نائجیریا اور عرب اسپرنگ کے بعد خانہ جنگی کے شکار ممالک۔‘‘ ان کے بقول عالمی سطح پر پروان چڑھنے والی اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے کوئی مثالی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں شدت پسندی کی روک تھام کے لیے مختلف پروگرام ہی کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔