1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جمہوریت کو ٹیکنالوجی سے خطرہ ہے؟

عاطف توقیر
17 فروری 2018

جرمن شہر میونخ میں جاری سکیورٹی کانفرنس میں عالمی رہنما اور ٹیکنالوجی ادارے جمہوریت اور انسانوں کو لاحق نئے اور مسقبل کے ممکنہ خطرات سے خبردار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2srYy
Deutschland Münchner Sicherheitskonferenz 2015 MSC Kofi Anan
تصویر: Reuters/M. Dalder

ریڈیو سے انٹرنیٹ تک جدید ایجادات نے جمہوریت پر گہری اثرات مرتب کیے ہیں۔ انٹرنیٹ نے جدید جمہوریتوں میں نئی جہتیں پیدا کی ہیں کیوں کہ ایک دہائی قبل ووٹر یہ سوچ تک نہیں سکتے تھے کہ سیاسی رہنما ٹوئٹر پر اپنی پالیسیوں کا اعلان کریں گے یا پوڈکاسٹ کے ذریعے فیصلے سازی کے درپردہ سوچ عوام سے بانٹی جائے گی۔ تاہم ٹیکنالوجی کے بہت سے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ کچھ خطرات بھی اس سے جڑے ہیں۔

'یورپی ممالک اپنے بَل پر سیکورٹی خطرات سے نمٹنے کے اہل بنیں‘

جرمن کار ساز اداروں میں ہڑتال

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے فیس بک، گوگل اور مائیکروسافٹ سے وابستہ افراد کے ہم راہ ایک مباحثے میں نئی ایجادات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مختلف خطرات کی بابت گفت گو کی۔

سن 2001ء کا نوبل امن انعام حاصل کرنے والے کوفی عنان نے سن 2011ء میں مصر میں ’سوشل میڈیا انقلاب‘ کا حوالہ دیا۔ تب ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے جمہوریت کے حامیوں کو مجتمع ہونے اور مظاہرے کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور انہی مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ کوفی عنان نے تاہم کہا، ’’قیادت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ انقلاب ناکام ہو گیا۔ فوج ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہو گئی۔ اب فوج وہاں وہ کچھ بھی کر رہی ہے، جس کا حسنی مبارک تک بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔‘‘

عنان نے کہا کہ آمرانہ حکومتیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مختلف طرز کی پابندیاں عائد کر رہی ہیں: ’’یہ ٹیکنالوجی جو عوام کی آزادی سے عبارت ہے اب لوگوں کو زیرنگیں کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کیا آزادی کی علامت ہیں یا کنٹرول کی؟‘‘

مصر میں حکومت مخالف تحریک کے بعد سوشل میڈیا ایک نئی جہت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی ایک طرف تو آمرانہ حکومتوں کے خلاف عوام کو آواز دے رہی ہے، تو دوسری جانب مغربی جمہوریتوں کو اس سے خطرات بھی لاحق ہیں، جس کی ایک مثال سن 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت ہے۔

اس مباحثے میں شریک فیس بک کے چیف سکیورٹی آفیسر نے کہا، ’’جب ہم نے فیس بک پر روسی انفارمیشن سرگرمیوں کا جائزہ لیا، تو ان میں سے تو کچھ پرائمریز سے بھی پہلے کی تھیں اور بہت سا مواد ایسا تھا، جو انتخابات کے بعد شیئر کیا گیا۔‘‘