1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ترک انتخابات ایک نئی قوم کو جنم دیں گے؟

23 جون 2018

ڈی ڈبلیو سے وابستہ سیدا سردار کے تبصرے کے مطابق اتوار کے روز ترکی میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ ایک نئی قوم کی صورت میں سامنے آنا ضروری ہے، دوسری صورت میں ترکی کے لیے حالات ’تباہ کن‘ ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/3096i
Türkei Kundgebung zur Unterstützung von Erdogan in Istanbul
تصویر: Reuters/O. Orsal

24 جون کو ترک ووٹرز ایک نئے صدر اور نئی پارلیمان کا انتخاب کریں گے۔ ترکی اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ قوم کو طے یہ کرنا ہے کہ اسے ایک ایسا صدر منتخب کرنا ہے، جس کے پاس بے انتہا طاقت ہو یا ملک کو ایک مرتبہ پھر پارلیمانی جمہوریت کی جانب لوٹانے کا راستہ کھولنا ہے۔

گیریچی ریسرچ انسٹیوٹ کے حالیہ عوامی جائزوں سے ظاہر ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پارلیمانی اکثریت سے محروم ہو سکتی ہے اور صدر کا انتخاب ممکنہ طور پر دوسرے مرحلے کی جانب بڑھ جائے۔ عوامی جائزوں کے مطابق صدر ایردوآن کو 48 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے اور ان کے سخت ناقد اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما محرم انچی ایردوآن کے لیے ایک بڑا چیلینج ثابت ہو سکتے ہیں۔

امریکا اور بھارت سمیت دنیا بھر میں جمہوریت کو زوال کا سامنا

ترکی: اپوزیشن کا الیکشن جیتنے کا امکان اور یورپ سے تعلقات

برلن کی لبرل مسجد کے قیام کا ایک سال مکمل

سوال لیکن یہ ہے کہ عوامی جائزے کس حد تک قابل اعتبار ہیں؟ ظاہر ہے ان پر مکمل طور پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد میں ایسے ووٹرز بھی موجود ہیں، جنہوں نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ایسے ووٹروں کی تعداد اس بار بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب ایردوآن کی جانب سے ملک میں پیدا کردہ خوف کا ماحول بہت سے ووٹروں کو اپنی اصل خواہش یا فیصلے کا اظہار کرنے کی راہ بھی روکے ہوئے ہے۔ اس لیے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عوامی جائزے کیا کہہ رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ ترکی ایک نئے آغاز کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اپوزیشن نے ایک بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے اور نہایت مضبوط امیدواروں کو سامنے لائی ہے۔

اپوزیشن جماعت CHP اور اس کے رہنما انچی کی جانب سے اس بار جتنی مضبوط مہم چلائی گئی ہے، وہ بتا رہی ہے کہ یہ جماعت ایردوآن ہی کے بیانیے کو استعمال کر کے ایردوآن کا رد پیش کر سکتے ہیں اور اسی لیے اپوزیشن کی انتخابی مہم نہایت جاندار بلکہ جارحانہ انداز کی تھی۔

ترکی میں سیاسی تبدیلی کا منظر تو دیکھا جا رہا ہے، تاہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ انتخابات کتنے صاف اور شفاف ہوں گے؟  مبصریں اور اپوزیشن اس کے لیے تیار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان انتخابات میں کوئی دھاندلی یا فراڈ کرنے کی کوشش کی گئی، تو حکومت کے لیے اس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہو گا۔

حالیہ دو برسوں میں ترک کرنسی لیرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں پچاس فیصد نیچے آئی ہے۔ ملک کی دو سال سے نافذ ہنگامی حالت کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار ترکی کا رخ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ انصاف کا نظام ایک جمود کا شکار ہے، ہزارہا افراد ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں، بہت سے گرفتار ہیں۔ صحافت شدید دباؤ میں ہے اور اب میڈیا کے پاس سانس لینے کی نہایت کم جگہ بچی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے وابستہ سیدا سردار کے بقول اگر اتوار کے انتخابات میں حکمران اے کے پی پارلیمانی اکثریت کھو دیتی ہے، تو صدارتی انتخابات کا فیصلہ دوسرے مرحلے پر موقوف ہو جائے گا اور لگتا یوں ہی ہے کہ ایردوآن کی یہ خواہش کہ وہ پہلے ہی مرحلے میں یہ انتخابات جیت لیں گے، تعبیر ہوتی دکھائی نہیں دیتی

مصنف : سیدہ سردار

ع ت / ع ب