1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تاریک مادے کا معمہ حل ہونے والا ہے؟

عاطف توقیر
15 جنوری 2018

اہم ترین طبیعیاتی سوالات میں سے ایک تاریک مادے کی موجودگی ثابت کرنا ہے۔ یہ مادہ ایک ایسا مظہر ہے، جس کے بالواسطہ شواہد تو موجود ہیں، تاہم اس کا سبب بننے والے ذرے تاحال نہ دیکھے گئے اور نہ ہی ان کا کوئی سراغ ملا ہے۔

https://p.dw.com/p/2qrYD
Bildergalerie mysteriöse Galaxien (Gemini Observatory, AURA, Travis Rector (Univ. Alaska Anchorage) )
تصویر: Gemini Observatory, AURA, Travis Rector (Univ. Alaska Anchorage)

کچھ عرصہ قبل سائنسی حلقوں میں خوشی اور تجسس کی ایک لہر دوڑ گئی تھی، جب سائنس دانوں نے کائناتی شعاعوں کی توانائی کے شواہد دریافت کیے تھے۔ اس کے بعد کہا جا رہا تھا کہ ڈارک مَیٹر یا تاریک مادے کی موجودگی ثابت ہو جانے کے بہت قریب ہے۔ تاریک مادے کو اس کائنات کا ایک چوتھائی حصہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ قریب تین چوتھائی حصہ ڈارک انرجی یا تاریک توانائی پر مشتمل ہے۔ واضح رہے کہ زمین، چاند، سورج اور ستارے عام مادے ہی کے بنے ہیں، جو مجموعی طور پر اس کائنات کے پانچ فیصد سے بھی کم کے برابر ہے۔

ڈارک مَیٹر کا وجود ثابت ہونے کا امکان

ماہرین فلکیات کی جانب سے کائنات کے سیاہ مادے کا بڑا نقشہ تیار

فیوژَن، ستاروں کا درجہٴ حرارت زمین پر

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نامعلوم ذیلی ایٹموں سے بنا تاریک مادہ ہر طرح کی دروبین کی پہنچ سے باہر ہے، مگر اس کی موجودگی فقط اس عظیم تجاذبی قوت کی صورت میں صرف بالواسطہ طور پر ہی محسوس کی جا سکتی ہے، جو کہکشاؤں کو یکجا رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے دو برس قبل خلا میں بھیجے جانے والے ایک سیٹلائٹ نے ایک اعشاریہ پانچ ملین کاسمک رے پروٹونز اور الیکٹرونز کا سراغ لگایا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ غیرمعمولی طور پر کم توانائی کے حامل ہیں۔

چین، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کے سائنس دانوں کی یہ مشترکہ تحقیقی کاوش سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی۔ ان سائنس دانوں کے مطابق حاصل کردہ معلومات تاریک مادے کو بنانے والے ذرات کے مٹ جانے کی وضاحت کر دین گی۔

چینی اکیڈمی آف سائنسز کے صدر بائی چُن لی کے مطابق، ’’یہ سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ ہم مزید ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ اگر ہم یہ ثابت کر پائے کہ یہی ڈارک مَیٹر ہے، تو یہ طبیعیات کی دنیا میں ایک بہت بڑا سنگ میل ہو گا اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ ذرات تاریک مادے کے نہیں، تو یہ اس سے بھی بڑی دریافت ہو گی، کیوں کہ ان ذرات کو ہم اس سے پہلے نہ تو جانتے تھے اور نہ ہی کسی سائنسی نظریے میں ان کی پیش گوئی کی گئی تھی۔‘‘

ڈارک مَیٹر پارٹیکل ایکپسلورر (DAMPE) نامی سیٹلائٹ خلا میں ایسے ہی ذرات کی معلومات جمع کر رہا ہے اور سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس کے ذریعے تاریک مادے کی نوعیت اور ماہیت کو سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ یہ سیٹلائٹ دسمبر 2015ء میں خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اس سے قبل ڈارک مَیٹر کے حوالے سے معلومات جمع کرنے والی ایک مشین AMS 02 بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS پر سن 2011 میں نصب کی گئی تھی۔ DAMPE اپنی نوعیت کے ایک امریکی سیٹلائٹ کی جدید ترین شکل ہے۔

اس تحقیق سے وابستہ سائنس دان چانگ جن  کے مطابق نئے سیٹلائٹ کی کارکردگی AMS 02 کے مقابلے میں ذرات کے دریافتی اعتبار سے دس گنا زیادہ اور درستی کے اعتبار سے تین گنا زیادہ بہتر ہے۔

درخت زل‍زلے کی لہروں کو جذب کرسکتے ہیں

یہ بات اہم ہے کہ Dark Matter کی موجودگی کی پیش گوئی سن 1995 میں کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ مختلف کہکشائیں جس تیزی سے اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہیں، ان میں موجود ستاروں کو ان کہکشاؤں کے ساتھ باندھے رکھنے کے لیے ان کے مرکز میں موجود ایک بے انتہا بڑے بلیک ہول کی کمیت بھی کم ہوتی ہے۔ تب سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ضرور ایسا کوئی تاریک مادہ موجود ہے، جو دکھائی تو نہیں دیتا، مگر اس کی تجاذبی کشش ان ستاروں کو مرکز گریز قوت کے سبب کہکشاؤں کی بہت ہی تیز رفتار گردش کے باوجود ان کے اثر سے باہر نہیں جانے دیتی۔ چوں کہ ڈارک مَیٹر کو اب تک کسی دوربین کے ذریعے بھی نہیں دیکھا جا سکتا، اس لیے اس کی تصدیق کو سائنس دان ایک بہت بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ اسی سے مربوط ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر تاریک مادے کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی، تو تاریک توانائی یا ڈارک انرجی کی ممکنہ موجودگی اور تصدیق کی راہ بھی ہم وار ہو جائے گی۔