1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بت پرست مخالف ہندو دانشور کو سزا دی گئی ہے؟

عدنان اسحاق31 اگست 2015

گزشتہ دنوں قتل کیے جانے والے بھارتی دانشور ڈاکٹر ایم کالبرگی کی آج آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ کالبرگی ریاست کرناٹک یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے تھے اور ان کا شمار بت پرستی کے مخالفین میں ہوتا تھا۔

https://p.dw.com/p/1GOa2
تصویر: Getty Images/AFP/Strdel

پیر کے روز بھارت کے مختلف علاقوں میں ڈاکٹر ایم کالبرگی کے قتل کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ جس وقت کالبرگی کی میت کو جلایا جا رہا تھا تو اس موقع پر ریاست کرناٹک کے شعبہ تعلیم کے کئی سو ماہرین، طلبہ، مصنفوں اور شہری حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے اس افسوس ناک واقعے پر شدید احتجاج کیا۔ اس دوران پولیس نے بھی اس واقعے کی گُتھیاں سلجھانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

77 سالہ ڈاکٹر کالبرگی کو ریاست کرناٹک میں ان کے آبائی شہر ’دھرود‘ میں اتوار کے روز قتل کیا گیا تھا۔ موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے انہیں دو گولیاں ماری تھیں۔ ڈاکٹر کالبرگی بت پرستی اور ضعیف الاعتقادی پر اپنی تنقید کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور حکام کو شبہ ہے کہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں اس قتل کے پیچھے ہو سکتی ہیں۔ ڈرامہ نویس اور ادکار گیرش کرناد کہتے ہیں’’ یہ خوف ذدہ کرنے دینے والی صورتحال ہے کہ ایک شخص کو اس کی تنقیدی سوچ کی وجہ سے قتل کر دیا گیا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں جمہوریت ہے، جس میں ہر شخص کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہے اور اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔

Indien Beisetzung Gelehrter M.M. Kalburgi
تصویر: Getty Images/AFP/Strdel

مقامی پولیس افسر رویندرا پرشاد کے مطابق قاتلوں تک پہنچنے کے لیے ایک خصوصی دستہ ترتیب دے دیا گیا ہے۔ ’’ ہم تمام پہلوؤں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ابھی کسی بھی طرح کی تفصیلات نہیں بتائی جا سکتیں۔‘‘ معروف استدلال پسند ہندو مصنف نریندر دبہولکر کو ابھی دو برس قبل ہی پُونے شہر میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔ دبہولکر کے قتل کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہو پایا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک اور مصنف اور کمیونسٹ سیاستدان گووند پنسارا کو اس وقت قتل کر دیا تھا، جب وہ ریاست مہاراشٹر کے ایک مقام پر اپنی اہلیہ کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔

گزشتہ تین برسوں میں مذہبی بالادستی اور خاص طور پر بت پرستی کی مخالفت کرنے والے یہ تیسرے دانشور کا قتل ہے۔ بھارت میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظمیوں نے اس رجحان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ریاست کرناٹک کے وزیر اعلی کے دفتر کے مطابق ’’یہ واقعہ رونما نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ قابل مذمت ہے۔‘‘