کھانا چاہتے ہیں؟ تو جگہ دستیاب ہے ٹوائلٹ کے ساتھ
کیا آپ اپنا کھانا ایک ایسے کمرے میں پکانے کا تصور کر سکتے ہیں جس میں ساتھ ہی ٹوائلٹ بھی ہو؟ یقیناﹰ نہیں۔ لیکن ہانگ کانگ میں کئی افراد انتہائی تنگ کمروں میں اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
نامساعد حالات
ہانگ کانگ میں کئی ایسے اپارٹمنٹس ہیں جہاں کھانا پکانے کے لیے جگہ عین ٹوائلٹ کے ساتھ ہی موجود ہے۔ کئی لوگ اس طرح کے حالات کو غیر انسانی تو سمجھتے ہیں لیکن ان میں رہنے پر مجبور بھی ہیں۔
کچن اور باتھ روم ایک ساتھ
کینیڈین فوٹوگرافر بینی لام نے ’ٹریپ ‘ یعنیٰ پھنسے ہوئے ‘ کے عنوان سے اپنی تصاویری سیریز کے ذریعے ہانگ کانگ کی پوشیدہ کمیونٹی کی زندگی کے احوال کو عکس بند کیا ہے۔ ان کی یہ سیریز ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے بنائی گئی ہے جو غربت کے خاتمے اور شہری حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔
محدود جگہ
تقریبا 7.5 ملین آبادی اور ترقیاتی کاموں کے لیے ہانگ کانگ میں زمین کی غیر موجودگی کے باعث اس شہر میں رہائشی اپارٹمنٹس اور گھروں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور اب یہاں رہائش اختیار کرنا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے سے زیادہ مہنگا ہے۔
نا قابل برداشت صورتحال
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس شہر میں اسی طرح کے 88 ہزار اپارٹمنٹس میں تقریباﹰ 2 لاکھ سے زائد افراد رہنے پر مجبور ہیں۔ رہائشیوں کو اس محدود جگہ میں اپنے روز مرہ کی ضروری سرگرمیاں انجام دینا پڑتی ہیں۔
اپارٹمنٹس کی دگنی قیمتیں
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف 2007 سے 2008ء کے درمیانی عرصے میں گھروں کی قیمتیں دگنی ہو گئیں۔ ان چھوٹے سے گھروں کے اکثر باسیوں کے لیے گھر لوٹنے کی سوچ ہی انتہائی پریشان کن ہوتی ہے۔ کئی گھروں کے رہائشی تازہ ہوا میں سانس لینے کو بھی ترستے ہیں۔
میٹرس کے سائز کے برابر گھر
ان گھروں میں رہنے والوں کا تعلق کم تنخواہ دار طبقے سے ہے جو یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ کئی کمرے تو ایسے ہیں جس میں وہ نہ تو مکمل طور پر سیدھا کھڑے ہو پاتے ہیں اور نہ ہی پاوں پسار سکتے ہیں۔ یہاں لال بیگ (کاکروچ) اور کھٹمل ان کے ساتھی ہیں۔
تابوت یا پنجرہ گھر
دو سال تک اپنی تصاویری سیریز پر کام کرنے والے لام نے کوشش کی ہے کہ یہاں غریبی اور امیری کے درمیان گہری ہوتی خلیج کی عکاسی کی جائے۔ ’پنجرہ ‘ یا ’ تابوت‘ کا نام دیے گئے ان گھروں کی تصاویر ان حالات کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
انسانی نفس کی تذلیل
اقوام متحدہ کی جانب سے ان حالات کو عزت نفس کی تذلیل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں کچھ بہتری کی امید کی جا رہی ہے اور اس کے لیے حکومت نے 2027ء تک 280,000 نئے گھروں کی تعمیر کا عندیہ دیا ہے جہاں زندگی کی کوالٹی کو مد نظر رکھا جائے گا۔