1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کھائیے، پیجیے اور قیمت دیجیے اپنی مرضی سے!

13 جنوری 2011

پراگ میں ایک ریستوراں کے مالک نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایک غیر روایتی لیکن کامیاب طریقہ اختیار کیا ہے، جس کا مقصد کاروبار کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے اپنے ریستوراں سے نرخوں کی فہرست ہی ہٹا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/zwuk
تصویر: picture alliance/dpa

چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں واقع اس ریستوراں کے مالک کا یہ طریقہ غیر روایتی ہی نہیں بلکہ انوکھا بھی ہے۔ نرخوں کی فہرست ہٹانے کا مقصد یہ ہے کہ گاہک وہاں پر کھانے پینے کی اشیا کے لیے اپنی مرضی کی قیمت دے سکیں۔ ہے نا غیر یقینی بات!

بیالیس سالہ Ondrej Lebowski نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’میرے پاس کوئی باقاعدہ گاہگ نہیں آتے تھے، نہ ہی میں نئے گاہکوں کو متوجہ کر پا رہا تھا، تب مجھے یہ خیال سوجھا۔ ان دنوں میرا ریستوراں تقریباﹰ بھرا رہتا ہے۔‘

اس ریستوراں کا نام ’بِگ لیبوسکی‘ ہے، جہاں اب گاہکوں کو کھانے اور پینے کی تمام اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرنے کی آزادی ہے۔ یہی نہیں، اس ریستوراں میں فلموں کے پوسٹر، کتابیں اور کھلونے بھی دستیاب ہیں، اور ان کی قیمت بھی گاہگ اپنی مرضی کے مطابق ادا کرتے ہیں۔

لیبوسکی نے اپنے ریستوراں میں یہ انوکھا خیال گزشتہ برس اگست میں متعارف کرایا تھا۔ پانچ مہینے بیت جانے کے بعد بھی پرتجسس گاہک اس ریستوراں کا رُخ کرتے ہیں، حالانکہ یہ کیفے ماضی میں کم آمدنی کی وجہ سے بس بند ہونے ہی والا تھا۔

EU Erweiterung Tschechien Stadt Panorama von Prag
یہ ریستوران پراگ میں واقع ہےتصویر: AP

لیبوسکی کہتے ہیں، ’گاہکوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ درست قیمت ادا کریں، کچھ لوگ زیادہ دے دیتے ہیں اور کچھ کم بھی۔‘ انہوں نے کہا کہ پھر بھی بیشتر گاہگ منصفانہ فیصلہ کرتے ہوئے نرخ ادا کرتے ہیں اور مفت کچھ کھانے پینے کی کوشش نہیں کرتے۔

اس آرام دہ کیفے کے گراؤنڈ فلور پر ایک چھوٹا سا بار بھی ہے جبکہ پہلی اور دوسری منزل پر بھی گاہکوں کے بیٹھنے کا انتظام ہے۔ یہ کیفے شام کے وقت کھلتا ہے۔

وہاں موجود ایک امریکی طالب علم انکت نے بتایا، ’میں ہفتے میں ایک مرتبہ یہاں آتا ہوں۔ یہ بہت ہی شاندار ہے، کیونکہ یہ ایک اچھی جگہ ہے، اس لیے دل یہی کہتا ہے کہ واجب قیمت ادا کی جائے۔‘ انہوں نے کہا، ’میں عام طور پر یہاں وہی قیمت دیتا ہوں، جو کسی دوسری جگہ ہو سکتی ہے۔‘

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: مقبول ملک