!!!کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
18 نومبر 2008کہا جاتا ہے کہ کسی ملک میں کیا ہورہا ہے یہ جاننے کے لیے اخبار کے دوسرے یا تیسرے پنے پر چھپے ہوئے کارٹون کو تھوڑا غور سے دیکھیے حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ ان خاکوں میں موجود کردار کسی بھی معاشرے کے سیاسی اور سماجی مسائل کا آئینہ سمجھے جاتے ہیں۔
مورخین کے مطابق تصویروں کے ذریعے کہانی سنانے کا آغاز قدیم مصر سے ہوا۔ اٹھارویں صدی میں برطانیہ اور انیسویں صدی میں جرمنی میں مزاحیہ خاکوں کو سماجی اور سیاسی حالات پر طنز کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ امریکی اخبارات میں کارٹون بیسویں صدی کے آغاز میں شائع ہونے شروع ہوئے۔
سب سے پہلا کامک 1895میں اخبار نیو یارک ورلڈ کے کارٹون پینل میں شائع ہوا تھا۔ اسے Hogans Alley کہا جاتا تھا۔ اس کا ایک کردار پیلا بچہ بہت مشہور تھا۔
سن انیس سو اسی میں آرٹ شپیگل مین کے بنائے گئے خاکوں پر مبنی ناول ’’ماؤس‘‘ نے کارٹون کی دنیا میں جدت پیدا کی۔ اس ناول کے دو والیم میں ہولو کوسٹ پر طنز اور تبصرہ کیا گیاہے۔ اسی ناول کی تخلیق پر آرٹ شپیگل مین کو امریکی صحافت کے سب سے اعلی ایوارڈ Pulitzer Prize سے بھی نوازا گیا۔
انسانوں کو جانوروں کے روپ میں پیش کر کے ان کی خصوصیات پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اکیسویں صدی کے اوائل میں مرجان ستراپی کی Persepolis نے بھی مزاحیہ خاکوں کو ایک نئی جہت دی۔اس ناول کے اب تک دہ والیم شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کہانی ایک ایرانی لڑکی کی ہے اور ایرانی سماج پر گہرا طنز ہے۔
کارٹون تقریباً ایک صدی سے ہمیں ہنسا رہے ہیں مگر ان کا کردار صرف ہنسانے کا نہیں رہا ۔ اگر ہم غور کریں تو بلیک اینڈ وائٹ کارٹون کے دور سے لے کر سیاسی طنز والے ایڈیٹوریل کارٹونز مثلاً Doonsberry ,Pogo،مہماتی کارٹون سیریز جیسے سپائیڈر مین ،ٹارزن ،بک راجرز ،جبکہ خاندانی زندگی پر مبنی کامکس کے علاوہ Little orphan annie، گارفیلڈ، ٹن ٹن سمیت کئی مقبول عام کارٹون اب تک کئی سماجی سیاسی اور ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرتے آرہے ہیں۔