1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کُشتی: دبئی میں پاکستانی محنت کشوں کی تفریح کا ذریعہ

17 اپریل 2018

ہر جمعے کی شام دبئی کے علاقے ڈیرا میں ایک ریتلی زمین کا ایک کا ٹکڑا،  پہلوانوں کے اکھاڑے کی شکل دھار لیتا ہے۔ اس جمعے کی شام پاکستان کے کالا پہلوان اکھاڑے میں اترنے کو تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/2wBeJ
Pakistan Wrestler
تصویر: CARL DE SOUZA/AFP/Getty Images

سورج غروب ہوتے ہی  کھجور کے درختوں کے نیچے درجنوں افراد  دائرے کی شکل میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور بھارت سے ہے جو تلاش معاش کے لیے یہاں مقیم ہیں اور متحدہ عرب امارت کی افرادی قوت میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں موجود پاکستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب سے ہے جہاں کُشتی کا کھیل وقت گزاری کے لیے بہترین مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک شام صوبے پنجاب کے شہر مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ کالا پہلوان اکھاڑے میں پوری شان سے اترتے ہیں۔ لیکن اس بار وہ اپنے حریف کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ اس میچ کا فاتح، کالا پہلوان کو ہرانے کے بعد نہایت فخر سے للکارتا ہے کہ اس کے جوڑ یا مقابلے کا اگر کوئی حریف اسے شکست دے سکتا ہے تو وہ اکھاڑے میں اترے۔ 

BdT Pakistan Ringer Lahore
تصویر: AP

دوستوں کے جھرمٹ میں گھرے کالا پہلوان، جیتنے والےکے چیلنج کے جواب میں ایک منصوبے پر اتفاق کرتے ہیں اور طے یہ پاتا ہے کہ چیلینجر کو دبئی کے بجائے کالا کے آبائی شہر مظفر گڑھ سے بلایا جائے۔  اس مقصد کے لیے وہ چند دنوں تک اپنے ہر ساتھی سے 50 سے 100 درہم کے درمیان رقم وصول کرتے ہوئے جہاز کا ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک 22 سالہ نوجوان محمد شہزاد کو اپنے ہمراہ دبئی لے آتے ہیں۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کالا پہلوان سے ان کی ملازمت کے اوقات میں ملاقات کی تو وہ دبئی کی واٹر فرنٹ مارکیٹ میں اپنے کام میں مشغول تھے۔ یہاں عمان، سری لنکا اور دیگر ممالک سے آئی ہوئی مچھلیاں برف پر فروخت کے لیے سجائی گئیں ہیں۔ اس مارکیٹ میں موجود اسٹالز پر نام تو امارتی مالکان کے نظر آتے ہیں لیکن ان کے پیچھے اکثر چہرے جنوبی ایشائی ہیں، جو یہاں کام کی غرض سے آتے ہیں۔

BdT Pakistanische Kushti Wrestler trainieren
تصویر: AP

پاکستان: شادیوں کے بعد خواتین بیرون ملک فروخت

متحدہ عرب امارات: غیر ملکی ملازمین کو ’تحفظ‘ مل گیا

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کالا پہلوان بتاتے ہیں کہ پاکستان کی مچھلی مارکیٹ میں ان کے تعلقات ہیں جس کی وجہ سے وہ دبئی کی مچھلی مارکیٹ میں ملازمت کرتے ہیں۔ چھ سال قبل دبئی آنے کے بعد انہیں یہاں ہر ہفتے ہونے والی کُشتی کے میچوں کے بارے میں پتہ چلا۔ اسی مارکیٹ میں ان کو ان مقابلوں سے معتارف کروانے والے محمد اقبال بھی کام کرتے ہیں۔ کالا بتاتے ہیں کہ مظر گڑھ کے اکثر گھروں میں کُشتی، روز مرہ کے معاملات کا حصہ ہے۔

کالا پہلوان کے مطابق کبھی کبھی وہ ان کُشتیوں سے ایک رات میں پانچ سے چھ سو درہم تک کما لیتے ہیں لیکن ان کے مطابق وہ کُشتی صرف پیسوں کے لیے نہیں لڑتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر دبئی میں کُشتی نہ ہو تو ہم نہ تو زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔‘‘

ع ف / ا ب ا ( اے ایف پی)