1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کيس کا فيصلہ بارہ دن ميں، اپيل پر فيصلہ ساڑھے انيس برس ميں‘

20 مئی 2018

اپنے اہل خانہ کو قتل کر دينے کے جھوٹے الزام ميں ايک سولہ سالہ لڑکی کو سلاخوں کے پيچھے دھکيل ديا گيا۔ قريب دو دہائيوں بعد اسما نواب پچھلے ماہ رہائی پانے پر آج کل اپنی بکھری ہوئی زندگی کو دوبارہ سميٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2y1Wx
Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: Getty Images

اسما نواب کی داستان پاکستان ميں انصاف کی فراہمی کے معيار کی عکاس ہے۔ سن 1998 ميں وہ صرف سولہ برس کی تھی جب اس کے گھر ميں ڈاکو گھس آئے اور کارروائی کے دوران اس کے والدين اور اس کے اکلوتے بھائی کا کسی نے گلا کاٹ کر انہيں قتل کر ديا۔ اس وقت کراچی ميں پيش آنے والا يہ واقعہ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر چھايا رہا اور عدليہ نے صرف بارہ ايام ميں فيصلہ سناتے ہوئے اسما نواب اور اس کے منگيتر کو سزائے موت کا حق دار قرار دے ديا۔ عصمہ بتاتی ہے، ’’اگلے بيس برس بہت تکليف دہ ثابت ہوئے۔‘‘

قيد ميں کاٹے وقت کی شروعات کچھ يوں ہوئی کہ ديگر قيدی ابتداء ميں تو اسما کی بے گناہی کے دعووں کو زيادہ سنجيدہ نہ سمجھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے انہی سلاخوں کے پيچھے اغوا، قتل اور ديگر سنگين الزامات کا سامنا کرنے والی ديگر خواتين قيديوں کے ساتھ رشتے قائم کر ليے۔ يہ عورتيں ايک الگ دنيا ميں ہر اچھے برے وقت ميں ايک دوسرے کا سہارا تھيں۔ اسما نے بتايا، ’’عيد اور ديگر مذہبی تہواروں پر آنکھيں آنسوؤں سے بھر آتی تھيں۔ يہ سب تکليف دہ تھا۔ مجھے بہت دکھ ہوتا تھا جب کبھی رشتہ دار ملنے آتے ہی نہيں تھے۔‘‘   

اب اسما کی عمر چھتيس برس ہے۔ اگرچہ اس کے کيس کا فيصلہ کافی پھرتی کے ساتھ سنا ديا گيا ليکن اس کی اپيل پر کارروائی اس رفتار سے نہ ہو سکی۔ سن 2015 ميں کہيں جا کر اسما کے وکلاء نے سپريم کورٹ ميں پٹيشن دائر کرائی اور پھر ساڑھے تين برس کی عدالتی کارروائی کے بعد پچھلے ماہ جا کر ناکافی شواہد کی بنياد پر اسے رہائی ملی۔ اسما کے وکيل جاويد چتاری کا اس بارے ميں کہنا ہے، ’’اس کيس کا فيصلہ بارہ دنوں ميں سنا ديا گيا تھا ليکن اپيلوں پر کارروائی ميں ساڑھے انيس برس لگ گئے۔‘‘ عالم يہ ہے کہ جب اس کيس کا فيصلہ آيا تو اسما کو يقين ہی نہيں آيا۔ وہ يہ سوچ کر خوف زدہ بھی تھی کہ اتنے طويل عرصے تک جيل کاٹنے کے بعد اب وہ اس دنيا کا سامنا کيسے کرے گی۔

اسما نواب کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ پاکستان ميں کوئی انہونی بات نہيں۔ آبادی ميں بے پناہ اضافے اور کيسوں کی بھرمار کے سبب عدليہ کے پاس ايسے کيسوں کی قطاريں لگی پڑی ہيں، جو کارروائی کے منتظر ہيں۔ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق عدالت عظمیٰ کے پاس تقريباً اڑتيس ہزار کيسز پڑے تھے، جن پر کارروائی ہونا تھی۔ اور يہ اعداد و شمار تو صرف سپريم کورٹ کے ہيں جب کہ ملک بھر کی عدالتوں ميں ايسے سينکڑوں کيس جمع ہيں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق يہاں ايک اور مسئلہ بدعنوانی کا ہے۔ پوليس فورس ميں کرپشن کے سبب امراء تو بچ نکلتے ہيں جبکہ غريب کی کوئی سنوائی نہيں۔ اسی طرح سالہا سال سے چلی آ رہی روايات اور سوچ کے سبب عورتوں کو ديگر امور کی طرف انصاف کی دستيابی کے معاملے ميں بھی بالخصوص امتيازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے ليے لڑنے والی ايک وکيل اور سياست ميں عورتوں کا کردار بڑھانے کے ليے سرگرم بے نظير جتوئی کہتی ہيں کہ غير متوازن نظام کی بدولت پيسے اور اثر و رسوخ والے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں۔ غريب افراد کے ليے نظام اتنا سست اور کمزور ہے کہ يہ نہ ہونے کی برابر ہی ہے۔

قريب بيس بعد اپنے گھر واپسی پر اسما نواب کی آنکھيں نم تھيں۔ اس کے وکيل نے جب گھر کا تالا توڑا، تو اندر کچھ بھی نہ تھا۔ اس کے بقول پوليس سب کچھ لے گئی۔ اسما آج بھی اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے ذمہ دار ميڈيا اور عدليہ کو ٹھہراتی ہے اور پھر اسے رہائی تو مل گئی ليکن طعنے تشنے آج بھی اس کی زندگی کا حصہ ہيں۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید