کيا تائيوان کی جمہوريت کميونسٹ چين کے ليے مثال ہے
13 جنوری 2012چينی صدر ہو جن تاؤ نے سال گزشتہ کے اواخر ہی ميں کميونسٹ پارٹی کے عہديداروں کو چين پر مغربی اثرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’دشمن بين الاقوامی طاقتيں چين کو مغربی اثرات کی لپيٹ ميں لانے کی کوششيں کر رہی ہيں۔ مغرب چين کو ثقافتی اور نظرياتی طور پر اپنے اثر ميں لانے کے ليے کوشاں ہے۔ اس ليے چين کو اپنی اقدار پر توجہ دينا چاہيے۔‘‘
چينی صدر کے مغربی اور چينی اقدار کو اس سختی سےالگ الگ کرنے پر سن 1990 کے عشرے ميں سنگاپور کے سابق وزير اعظم لی کوآن يو کی چھيڑی ہوئی بحث کی ياد تازہ ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ محنت، کفايت شعاری، اعلیٰ اختيار کو تسليم کرنا اور انفراديت پرپورے معاشرے کی بھلائی کو ترجيح دينا مشرقی ايشيا کے اقتصادی معجزے کی بنياديں ہيں۔ ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ جمہوريت اور مشرقی اقدار کا آپس ميں جوڑ نہيں ہے۔ لی کو اس پر خصوصاً ملائيشيا اور چين سے بہت داد و تحسين ملی تھی۔ جرمنی کی ٹيوبنگن يونيورسٹی کے، وسيع تر چينی مطالعات کے پروفيسر گنٹر شوبرٹ نے کہا: ’’يہ خيالات خود اپنی حکمرانی کا جواز پيش کرنے کے ليے بھی تھے۔ بلآخر اس کا مقصد خود اپنے حکمرانہ استحقاق کو تحفظ دينا تھا۔‘‘
تائيوان ميں جمہوريت کے حاميوں کا کہنا ہے کہ تائيوان کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوريت چينی کلچر ميں بھی پروان چڑھ سکتی ہے۔ تائيوان ميں فوجی آمريت نے سن 1980 کے عشرے کے وسط ميں رفتہ رفتہ جمہوريت کی طرف بڑھنا شروع کيا تھا۔ پچھلے 15برسوں ميں تائيوان ميں دو مرتبہ انتخابات کے ذريعے حکومتنں تبديل ہوئی ہيں۔ ہفتے کو ہونے والے انتخابات تيسری مرتبہ حکومت کی تبديلی کا سبب بن سکتے ہيں۔
ہائڈل برگ يونيورسٹی کے ماہر سياسيات پروفيسر آ ؤريل کروئساں کو يقين ہے کہ تائيوان کی جمہوريت کا اثر کميونسٹ چين پر بھی پڑے گا۔ تاہم اس بات کے کوئی آثار نظر نہيں آتے کہ چين تائيوان کے نظام سياست کو اپنائےگا۔ ليکن چينی دانشوروں کے درميان جمہوريت کی حمايت اور مخالفت پر زور دار بحث جاری ہے۔
رپورٹ: کرسٹوف رکنگ / شہاب احمد صديقی
ادارت: عدنان اسحاق