کولون کیتھیڈرل، اسلام دشمنی کے خلاف
2 جنوری 2015سابق مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ’پیٹریاٹک یورپیئنز اگینسٹ دی اسلامائزیشن آف دی ویسٹ‘ (PEGIDA) کے نام سے شروع کیے جانے والے ایک گروپ نے مغرب میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی کے خلاف ہفتہ وار مظاہروں کا آغاز گزشتہ برس اکتوبر میں کیا تھا۔
پیر کے روز ڈریسڈن میں ہونے والے اس مظاہرے میں 17 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ کولون اور ملک کے سابق دارالحکومت بون میں بھی اسی طرح کے مظاہرے کیے گئے ہیں۔ اسلام اور مہاجرین مخالف اس گروپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سیاسی انتظامیہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اپنے نئے سال کے پیغام میں یہ کہنا پڑا کہ اس گروپ کے رہنما نسل پرست ہیں اور نفرت پھیلا رہے ہیں اس لیے عوام کو ان کے ہاتھوں استعمال ہو جانے کا خیال رکھنا چاہیے۔
اس گروپ کے خلاف بھی عوام بڑے مظاہرے منعقد کر رہے ہیں۔ ’نو پیگیڈا‘ کے نام سے اعتدال پسند گروپ کا ماننا ہے کہ جرمنی میں ہر ایک کے لیے برابر کے مواقع ہونے چاہییں اور یہی چیز جرمن معاشرے کا حُسن ہے۔
پیر پانچ جنوری کو اس گروپ کی طرف سے کولون شہر کے مرکز سے ایک مارچ گزارنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد کولون کیتھڈرل کے قریب ریلی منعقد کی جائے گی۔
کیتھڈرل کے ڈین نوربرٹ فیلڈ ہوف نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’پیگیڈا میں حیران کُن طور پر مختلف طرح کے لوگ شامل ہیں جن میں معاشرے کے اعتدال پسندوں کے علاوہ نسل پرست اور انتہائی دائیں بازو کے افراد شامل ہیں۔‘‘
’’تیز روشنیاں بند کر کے ہم چاہتے ہیں کہ مارچ میں شریک لوگ رُک کر سوچیں۔ یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ وہ کِن لوگوں کے ساتھ مارچ کر رہے ہیں۔‘‘
ڈریسڈن شہر کے معروف ’سیمپروپر‘ Semperoper اوپرا ہاؤس نے بھی گزشتہ پیر کے روز پیگیڈا کے مارچ کے موقع پر اپنی روشنیاں گُل کر دی تھیں۔
جمعرات کے روز کرائے جانے والے رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق ہر آٹھ میں سے ایک جرمن کا کہنا تھا کہ اگر اس کے شہر میں پیگیڈا کی جانب سے ریلی منتعقد کی گئی تو وہ اس میں شریک ہو گا۔ جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کافی لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ گزشتہ برس کے دوران دو لاکھ سے زائد افراد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی میں داخل ہوئے۔ یہ تعداد سال 2012ء کے بارے میں چار گُنا زائد ہے۔