1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئی بھی طالب علم ہاتھ ملانے سے انکار نہیں کر سکتا

افسر اعوان25 مئی 2016

سوئٹزرلینڈ کی ایک علاقائی تعلیمی انتظامیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ کوئی بھی طالب علم اپنے استاد کے ساتھ مذہبی وجوہات کی بناء پر ہاتھ ملانے سے انکار نہیں کر سکتا۔

https://p.dw.com/p/1Iu8w
تصویر: imago/CHROMORANGE

سوئٹزرلینڈ کی باسل کاؤنٹی کے شہر تھیروِل میں یہ واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا تھا جس کے بعد اس پر سوئٹزرلینڈ بھر میں عوامی رد عمل سامنے آیا۔ شام سے تعلق رکھنے والے 14 اور 15 برس کی عمر کے ان دونوں طالب علموں بھائیوں کا کہنا تھا کہ اسلام میں کسی غیر خاتون کے ساتھ جسمانی اتصال یا تعلق منع ہے۔ علاقائی تعلیمی انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ آج بدھ 25 مئی کو سامنے آیا ہے۔

علاقائی تعلیمی انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد اگر طالب علم اپنے اساتذہ سے مصافحے سے انکار کرتے ہیں تو ان کے والدین یا سرپرستوں کو جرمانہ ادا کرنا ہو گا جو 5000 سوئس فرانک تک ہو سکتا ہے۔ یہ رقم پانچ ہزار امریکی ڈالرز یا پاکستانی روپوں میں پانچ لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔ تعلیمی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’ایک استاد کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ مصافحہ کرنے کا مطالبہ کرے۔‘‘

اسکول انتظامیہ کی طرف سے ابتداء میں مسلمان طالب علموں کو اس بات کی چھُوٹ دے دی گئی تھی کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے اساتذہ سے مصافحہ نہ کریں خواہ وہ مرد استاد ہو یا خاتون۔ اس فیصلے کا مقصد خاتوان اساتذہ کو امتیازی سلوک سے بچانا تھا۔ علاقائی انتظامیہ کی طرف سے اس فیصلے کے بعد مسلمان طالب علموں سے یہ سہولت واپس لے لی گئی ہے۔

گزشتہ ماہ پیش آنے والے واقعے کے بعد اس پر سوئٹزرلینڈ بھر میں عوامی رد عمل سامنے آیا
گزشتہ ماہ پیش آنے والے واقعے کے بعد اس پر سوئٹزرلینڈ بھر میں عوامی رد عمل سامنے آیاتصویر: Getty Images/Sean Gallup

اسکول انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ علاقائی تعلیمی انتظامیہ سے کسی قسم کے مشورے کے بغیر کیا گیا تھا اور اس پر سوئٹزرلینڈ بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا کیونکہ سوئٹزرلینڈ میں ایک استاد سے مصافحہ کرنا دراصل اس کی عزت کے اظہار کے طور پر لیا جاتا ہے۔

آج بدھ کے روز اس فیصلے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’صنفی مساوات کے حوالے سے عوامی مفاد اور غیر ملکیوں کا سوئس معاشرے میں انضمام طالب علموں کے عقائد کی آزادی سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘

مذکورہ اسکول کی طرف سے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’اب اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔‘‘ اسکول کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے مذکورہ طالب علموں کے والدین کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔