1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کن ممالک سے اور کتنی خواتین پناہ کے ليے جرمنی پہنچيں؟

عاصم سلیم
16 اپریل 2017

پچھلے چند سالوں کے دوران پناہ کے لیے جرمنی آنے والوں کی بھاری اکثريت مردوں پر مشتمل ہے تاہم 2012ء سے 2016ء کے دوران قريب پانچ لاکھ عورتيں بھی اسی مقصد سے جرمنی پہنچيں، جن کی اکثريت کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔

https://p.dw.com/p/2bJW4
Deutschland Symbolbild Flüchtlinge Gewalt gegen Frauen und Kinder
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

سن 2012 سے سن 2016 کے دوران مجموعی طور پر 506,789 عورتيں پناہ کے ليے جرمنی آئيں۔ يہ اعداد و شمار جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ہجرت و مہاجرين BAMF کی طرف سے رواں مہينے ايک رپورٹ کی صورت ميں جاری کيے گئے ہيں۔ رپورٹ کے مطابق 2016ء ميں 247,804 عورتيں، سن 2015 ميں 136,315، سن 2014 ميں 57,891، سن 2013 ميں 40,109 جب کہ سن 2012 ميں 24,670 خواتین  جرمنی پہنچيں۔

خواتين مہاجرين کی اکثريت کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے۔ اس پانچ سالہ عرصے ميں جرمنی پہنچنے والی عورتوں ميں سے 156,186 کا تعلق شام سے ہے، 56,307 کا تعلق افغانستان سے جب کہ 52,348 کا آبائی ملک عراق ہے۔

پاکستان سے بھی مسلسل ہجرت جاری ہے۔ سن 2012 سے لے کر سن 2016 تک مجموعی طور پر 3,288 پاکستانی خواتین پناہ کے ليے جرمنی پہنچيں۔ رپورٹ کے مطابق 2016ء ميں 1,178 عورتيں، سن 2015 ميں 602، سن 2014 ميں 521، سن 2013 ميں 429 جب کہ سن 2012 ميں 558 پاکستانی عورتيں جرمنی پہنچيں۔

مردوں کی نسبت خواتين پناہ گزينوں ميں جرمن زبان بولنے اور لکھنے کی صلاحيت ذرا کم ہے۔ وفاقی جرمن دفتر برائے ہجرت و مہاجرين کے اندازوں کے مطابق تقريباً 22.7 فيصد عورتيں روانی کے ساتھ جرمن بولتی اور لکھتی ہيں۔ 22.7 فيصد عورتوں کو جرمن  زبان پر درميانے درجے کا عبور حاصل ہے جبکہ قريب اکتيس فيصدر عورتيں سرے سے جرمن بول اور سمجھ نہيں سکتيں۔ مردوں پر نظر ڈالی جائے تو، تقريباً اٹھائيس فيصد مہاجر مرد بڑی روانی کے ساتھ جرمن بولتے اور لکھتے ہيں، اڑتاليس فيصد کو زبان پر درميانے درجے کا عبور حاصل ہے جب کہ ساڑھے تيئس فيصد سرے سے ہی جرمن بول اور سمجھ نہيں سکتے۔ زبان سيکھنے کو جرمنی ميں سماجی انضمام اور ملازمت جيسی اہم چيزوں کی کنجی مانا جاتا ہے۔

جرمنی پہنچنے والی چاليس فيصد مہاجر لڑکيوں کی عمريں اٹھارہ برس سے کم ہيں جب کہ اڑتيس فيصد ايسی عورتيں ہيں، جن کی عمريں اٹھارہ سے پينتيس سال کے درميان ہيں۔ ان عورتوں ميں بھاری اکثريت مسلمانوں کی ہے۔ سن 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال جرمنی آنے والی 69.8 فيصد خواتين پناہ گزينوں کا مذہب اسلام تھا۔ مجموعی تعداد ميں کيتھولک مسيحی عورتوں کا تناسب سترہ فيصد جب کہ ايزدی عورتوں کا پانج فيصد تھا۔ پچھلے سال بھی جرمنی پہنچنے والی قريب پچھتر فيصد خواتين مہاجرين کا تعلق مذہب اسلام سے ہے۔

مہاجرین پیسوں کی خاطر بیٹیوں کی شادیوں پر مجبور

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں