کشمیری عوام اور باغیوں کی یکساں سوچ بھارت کے لیے ’تباہ کن‘
26 اگست 2016عبدالشکور کے سیب کے باغات ہیں۔ سرخ اور گلابی رنگ کے کشمیری سیب پک چکے ہیں لیکن شوپیاں کے رہائشی عبدالشکور اس مرتبہ پھل درختوں سے اتارنا ہی نہیں چاہتے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری جھڑپوں کو تقریبا پچاس دن ہو گئے ہیں اور ان کے اثرات وہاں زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔
عبدالشکور کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم تمام کاشت کاروں نے ایک اجلاس میں یہ وعدہ کیا ہے کہ رواں برس ہم فصلوں کی کٹائی نہیں کریں گے اور اس کا مقصد علیحدگی پسندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔‘‘
سرخ اور گلابی سیبوں کو اس سرسبز اور خوبصورت وادی کی زرخیز زمین کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ اس خطے کی سب سے مشہور برآمدات میں سے ایک ہیں۔
برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے جاری جھڑپوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 66 کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کرفیو کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران دو بھارتی سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں اور سن 2010 کے بعد اس علاقے میں ہونے والے یہ شدید ترین مظاہرے ہیں۔ اسکول، دکانیں اور بینک وغیرہ بند ہیں جبکہ معاشی سرگرمیاں بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔
گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کو ’جنت‘ سے تشبیح دی تھی لیکن وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ’جیل میں قید‘ محسوس کرتے ہیں۔ جمعرات کو بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ کشمیریوں کے ’درد سے آگاہ‘ ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ایک انتہائی قریبی عہدیدار کو کشمیر کے دارالحکومت روانہ کیا ہے۔ سری نگر پہنچنے کے بعد وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا، ’’یہ نہ کہیے کہ ہم صورتحال سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ کہاں ہے اور ہم اس کا حل بھی تلاش کر لیں گے۔‘‘
مودی حکومت کہتی ہے کہ یہ پاکستان ہے، جو علیحدگی پسندوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے کشمیریوں کو زیادہ خود مختاری کی ضمانت فراہم کی تھی لیکن مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی باضابطہ طور پر اُس آئینی شق کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کا یہ موقف کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔
کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا اس بارے میں کہنا تھا، ’’نئی دہلی حکومت زیادہ خود مختاری فراہم کرنے کے اپنے وعدے سے مکر رہی ہے۔‘‘
دریں اثناء حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے باوجود حالیہ دنوں میں ہزاروں دستے اس علاقے میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ایک سینیئر فوجی افسرکا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’سیاسی آغاز کے بجائے سب کچھ ہمارے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے اور جو ہم کرتے ہیں اس کے اپنے نتائج سامنے آتے ہیں۔‘‘
اسی طرح کشمیر میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’جبری دباؤ کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عسکریت پسند اور عوام ایک ہی صفحے پر ہوں۔ یہ انتہائی تباہ کن نتیجہ ہے۔‘‘
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کی فوجی ہتھکنڈوں سے اس بحران میں صرف اور صرف اضافہ ہی ہوگا، ’’آج ہزاروں نوجوان زخمی حالت میں ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں یہاں سے نکلتے ہی ہتھیار فراہم کیے جائیں۔ نوجوانوں میں یہ خوف ختم ہو گیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔‘‘