1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر کا تنازعہ اور درپردہ چکائی جانے والی قیمت

عابد حسین
12 اپریل 2017

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک اور ضمنی الیکشن آج ہو رہا ہے۔ پہلے مرحلے کے ضمنی الیکشن کے دوران ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں آٹھ کشمیری مظاہرین کی ہلاکت ہوئی تھی۔

https://p.dw.com/p/2b6Nc
Indien Kashmir eine Frau schaut aus dem Fenster in Srinagar
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

آج بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ضمنی انتخابات کے دوسرے مرحلے پر انتہائی سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں دوسرے مرحلے کی پولنگ اننت ناگ شہر میں ہو رہی ہے۔ اس سے قبل اتوار دس اپریل کو ضمنی الیکشن کے پہلے مرحلے میں مشتعل کشمیریوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کرنے کی کوشش کی اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کی ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

پولنگ میں رجسٹرڈ ووٹروں کے حق رائے دہی استعمال کرنے کا تناسب سات فیصد کے قریب تھا۔ اسی تناظر میں سری نگر اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا ہے جب کہ عام لوگوں کی انٹرنیٹ تک رسائی بھی محدود بنا دی گئی ہے۔

جوہری قوت کے حامل پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ انتہائی خطرناک حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں ہم سایہ ممالک کے درمیان اس علاقے کی حیثیت کا تنازعہ دو بڑی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندی کی ایک مضبوط تحریک وقفے وقفے سے سر اٹھاتی رہتی ہے۔ ابھی بھی کشمیری علیحدگی پسند اپنے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

Kaschmir Konflikt mit Indien, Tunneleröffnung
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتہائی سخت سکیورٹی کی وجہ سے عام انسانی زندگی شدید متاثر ہو چکی ہےتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

پاکستان اور بھارت کے درمیان منقسم کشمیر کو دوحصوں میں توڑتی کنٹرول لائن کوئی مستقل سرحد نہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان یہ عملی سرحد ہی تصور کی جاتی ہے۔ دونوں طرف ایک دوسرے کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ سن 1990 میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمتی تحریک کے بعد بیس ہزار کشمیری نقل مکانی کرکے پاکستان کے زیر انتظام علاقے میں داخل ہوئے تھے۔

انہی خاندانوں میں ایک محمد اشرف کا گھرانہ بھی تھا۔ محمد اشرف نے چھبیس برسوں بعد اپنے بقیہ خاندان سے ملاقات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کی ہے۔ سن 1990 میں وہ بھارتی فوج میں تھے اور علیحدگی پسندی کی تحریک کی شدت کی وجہ سے اُن کا سارا خاندان بھارت کے زیرانتظام کشمیر سے کنڑول لائن عبور کر کے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں منتقل ہو گیا۔ محمد اشرف ایسا نہ کر سکے کیونکہ وہ ملکی فوج کو چھوڑ کر بقیہ خاندان کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ساٹھ سالہ اشرف فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد دس برس کی کوششوں سے پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اپنے خاندان سے ضرور ملے لیکن اس دوران اُن کے والدین کا انتقال ہوچکا تھا،  اُن کے بچے بڑے ہو چکے تھے۔