کشمیر: پولنگ اور الیکشن مخالف مُظاہرے بھی
13 دسمبر 2008پولیس حکام کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ سری نگر کے جنوب میں واقع گاٴوں قوئیل میں پیش آیا جہاں لوگ الیکشن کے خلاف مُظاہرہ کررہے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام نے فائرنگ کے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
ہفتے کو وادی کشمیر کے دو اضلاع، شوپیان اور پلوامہ، جبکہ جموّں کے کٹھوعہ ضلع میں اسبملی انتخابات کے لئے ووٹ ڈالے گئے تاہم کشمیر میں پولنگ کا عمل پُر امن نہیں رہا۔ کئی جگہوں پر پولیس اور مُظاہرین کے مابین جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں انیس مُظاہرین اور پندرہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
ہفتے کے روز وادی کے دو اضلاع شوپیان اور پلوامہ کے کُل سات اسمبلی حلقوں میں ووٹنگ ہوئی اور ان دونوں ہی اضلاع کو علیحدگی پسندوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ کئی مقامات پر الیکشن مخالف مُظاہرے ہوئے اور لوگ بھارت کی حکمرانی کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے دے رہے تھے۔ تاہم کئی پولنگ سٹیشنوں پر لوگوں نے ووٹ بھی ڈالے۔ بعض ووٹروں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ووٹ نہ تو کشمیر کی آزادی اور نہ ہی حریت کانفرنس کے خلاف ہے۔ ایک ووٹر نے کہا: ’’ہم سب آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن ہم فوجیوں سے تنگ آگئے ہیں۔ حکومت بنے گی اور ہمارے مسائل حل ہوں گے، سڑکیں بنیں گی، دوسرے کام ہوں گے۔‘‘
پلوامہ اور شوپیان میں مجموعی طور پر ایک سو تیرہ امیدوار چناٴو میدان میں ہیں۔
جموّں کے ضلع کٹھوعہ میں بھی آج ہی پولنگ ہوئی۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پلوامہ، شوپیان اور کٹھوعہ میں مجموعی طور پر پولنگ کی شرح ساٹھ فی صد رہی۔
ادھر حکام نے آج بھی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بغیر اعلان کے کرفیو نافذ کیا ہوا تھا جبکہ حریت پسند قیادت نے الیکشن کے خلاف احتجاجی ہڑتال کی کال دے رکھی تھی جس کا پوری وادی میں بھرپور اثر رہا۔ حکام نے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے رہنماوٴوں، سید علی شاہ گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کو آج بھی اُن کے گھروں میں ہی نظر بند رکھا۔
میرواعظ عمر فاروق نے الیکشن کے موقع پر غیر معمولی پابندیوں، بغیر اعلان کے کرفیو اور مُظاہرین پر فائرنگ کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات سے ’’بھارت کے جمہوریت کے دعوووں کی پول کھلتی ہے۔’’
بحران زدہ ریاست میں سترہ نومبر کو اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔