1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر میں متنازعہ سکیورٹی قوانین، عمر عبداللہ کا وعدہ

3 نومبر 2011

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ ریاست میں نافذ متنازعہ سکیورٹی قوانین جزوی طور پر واپس لینے سے پہلے سینئر وزراء اور ملکی فوج سے بھی مشورہ کریں گے۔

https://p.dw.com/p/134T0
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہتصویر: AP

بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ملکی سکیورٹی دستوں اور ریاستی پولیس کو کئی سالوں سے کشمیری علیحدگی پسندوں کی مسلح تحریک اور عوامی مظاہروں کا سامنا ہے۔ وہاں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسے متنازعہ قوانین نافذ ہیں جن کے تحت فوج اور نیم فوجی دستوں کو بے تحاشا اختیارات حاصل ہیں۔

اس سلسلے میں عمر عبداللہ نے بھارتی ٹی وی چینل NDTV کو بتایا کہ ان کی حکومت جموں کشمیر میں نافذ ان قوانین کے جزوی خاتمے سے متعلق کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ریاستی کابینہ کی سطح پر تفصیلی مشاورت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ متحدہ کمان کی سطح پر بھی مشورے کیے جائیں گے تاکہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ حد تک مناسب فیصلہ کیا جا سکے۔

Ein Soldat der CRPF überwacht die Ausgangssperre in der Stadt Srinagar
ریاستی پولیس کو کئی سالوں سے کشمیری علیحدگی پسندوں کی مسلح تحریک کا سامنا ہےتصویر: UNI

طویل عرصے سے خونریزی اور بدامنی کی شکار اس ریاست میں علیحدگی پسندی اور مسلح بغاوت کے خلاف جاری سرکاری سکیورٹی کارروائیوں کی نگرانی یہی متحدہ کمان کرتی ہے۔ اس میں فوج کے سربراہ، نیم فوجی دستوں کی اعلیٰ قیادت اور ریاستی پولیس کے علاوہ کشمیر کی انتطامیہ بھی شامل ہے۔ اس متحدہ کمان کی سربراہی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے پاس ہے۔

اس سلسلے میں اپنے آئندہ ارادوں کا اشارہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ابھی حال ہی میں ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں پولیس اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے چند خاص حصوں میں خصوصی سکیورٹی قوانین کا نفاذ ختم کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کا کافی خیر مقدم کیا گیا تھا۔ تب یہ بھی کہا گیا تھا کہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں بہت متنازعہ سکیورٹی قوانین کے خاتمے سے وہاں حالات کو دوبارہ معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔

Kaschmir Pakistan Indien Jammu Kashmir Chakothi
تصویر: DW

کشمیر  میں نافذ اور کالے قوانین قرار دیے جانے والے خصوصی  ضابطوں میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ AFSPA  اور ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ DAA شامل ہیں۔ یہ قوانین وہاں 1990 سے نافذ ہیں۔ ان قوانین کے تحت وہاں تعینات قریب پانچ لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو وسیع تر خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ ان قوانین کی بہت سے سماجی اور قانونی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔

انہی قوانین کے تحت سکیورٹی اہلکاروں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو بغیر کسی عدالت میں پیش کیے طویل عرصے تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں طاقت کے بھرپور استعمال اور نجی املاک کی تباہی کا حق بھی حاصل ہے۔

بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت ان قوانین میں فی الحال کسی نرمی یا ان کے ریاست میں جزوی خاتمے کے خلاف ہے۔ فوج کے مطابق ایسا کرنے سے اس کی مسلح عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں