1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کریمیا ایک برس بعد بھی مشکلات میں گِھرا ہوا

افسر اعوان26 فروری 2015

کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو ایک برس بیت گیا ہے تاہم بحیرہ اسود کا یہ جزیرہ نما آج بھی افراط زر کے خلاف نبرد آزما اور دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ مگر اس کے باوجود کریمیا کے عوام روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے حمایتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EiGj
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زیادہ تر مقامی افراد کا خیال ہے کہ روس کی جانب سے گزشتہ فروری میں کریمیا کو اپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ بہترین عمل تھا جبکہ اس کے خلاف بات کرنے والے افراد دراصل کریمیا کے غدار ہیں۔ گالینا ٹولماچووا Galina Tolmachyova ایک نرس ہیں وہ کہتی ہیں، ’’میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ ہم روس کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ایک لمبے عرصے سے ہمارا خواب تھا۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اجرتیں نسبتاﹰ دیر سے ملنے کی وجہ سے کچھ بے چینی ضرور پائی جاتی ہے تاہم اہم بات یہ ہے کہ اب یہاں جنگ نہیں ہے۔‘‘

کریمیا کی کُل آبادی کا 82 فیصد روس کے ساتھ شامل ہونے کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ یہ بات سروے کرانے والے معروف یوکرائنی ادارے GfK کی طرف سے رواں ماہ کییف میں جاری کی جانے والی ایک سروے رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کریمیا کے محض چار فیصد شہری ایسے ہیں جو روس کے ساتھ الحاق کے خلاف ہیں۔

ماسکو حکومت کا دعویٰ ہے کہ کریمیا کے عوام نے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے روس کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے
ماسکو حکومت کا دعویٰ ہے کہ کریمیا کے عوام نے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے روس کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: Reuters

یوکرائن کے علاقے کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی بین الاقوامی برادری کی طرف سے مذمت کی گئی تھی جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اسی باعث روس نواز باغیوں نے یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں علیحدگی کے لیے بغاوت کا آغاز کیا۔ گزشتہ برس اپریل سے اب تک یوکرائن کے ان مشرقی علاقوں میں جاری خانہ جنگی کے باعث قریب 5800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ماسکو حکومت کریمیا کے تاریخی ساحلوں کو روسی تہذیب کا گہوارہ قرار دیتی ہے۔ اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے جس میں ایک پُل کی تعمیر بھی شامل ہے جو کریمیا کو روس کے ساتھ منسلک کرے گا۔ تاہم فی الحال کریمیا کے باشندے ایک طرح سے باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں کیونکہ کییف نے اس جزیرہ نما کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرائنی بحران کے باعث عالمی برادری کی طرف سے روس کے خلاف پابندیاں عائد ہیں جو اس کے لیے اقتصادی مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔ اسی باعث ماسکو حکومت کریمیا کی اس حد تک مالی مدد کرنے سے قاصر ہے جس قدر اس ریاست کو درکار ہے۔ اسی باعث کریمیا کے باشندوں کو ملنے والی تنخواہوں میں نہ صرف تاخیر ہو جاتی ہے بلکہ ادویات سمیت دیگر اشیائے ضرورت کی بھی قلت رہتی ہے۔

27 فروری 2014ء کو علی الصبح مسلح فوجیوں نے کریمیا کی حکومتی عمارتوں کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جبکہ اسی روز علاقائی پارلیمان نے کابینہ کو معطل کرتے ہوئے سیرگئی اکسینوف کو سربراہ حکومت مقرر کر دیا تھا۔

ماسکو حکومت کا دعویٰ ہے کہ کریمیا ہمیشہ سے روس کا حصہ تھا مگر اسے 1950ء کی دہائی میں سوویت دور میں غیر قانونی طور پر یوکرائن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ کریمیا کے عوام نے بغیر کسی بیرونی دباؤ کے روس کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔