1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کراچی پولیس پر حملوں کی ذمہ دار انصار الشریعہ‘

27 جولائی 2017

کراچی میں سرگرم جماعت انصار الشریعہ کے پولیس پر ہونے والے پے در پے حملوں نے شہر میں ایک مرتبہ پھر خوف کی فضا قائم کردی ہے تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ان دہشت گردوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں۔

https://p.dw.com/p/2hFoU
Pakistan Karachi Anschläge
تصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر اس مرتبہ دہشت گردوں کا واحد ہدف پولیس معلوم ہوتی ہے۔ شہر میں سرگرم دہشت گردوں نے اپنی کاروائیوں کا آغاز گزشتہ برس نومبر میں ٹریفک پولیس کے ایک سینیئر افسر اور فلور مل کے احمدی منیجر کو ایک ہی دن دو الگ وارداتوں میں قتل کر کے کیا تھا۔

فروری میں اسی گروہ نے پولیس فاؤنڈیشن کے محافظ کو نشانہ بنایا۔ اپریل میں اسی گروہ نے شہر کی سب سے مصروف سڑک شارع فیصل پر فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر کو نہ صرف نشانہ بنایا بلکہ سوشل میڈیا پر اس واردات کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اس پیغام سے ’انصار الشریعہ پاکستان‘ کا نام پہلی بار منظر عام پر آیا۔

مئی کے مہینے میں اسی گروہ نے بہادر آباد میں ایک پولیس موبائل پر فائرنگ کی۔ اس حملے میں دو اہلکار جاں بحق اور تیسرا زخمی ہوا۔ رمضان کے اواخر میں بھی اس گروہ نے سائٹ کے علاقے میں چار پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جب وہ روزہ افطار کرنے کے لیے ایک ہوٹل کے باہر بیٹھے تھے۔ اس گروہ نے رواں ماہ میں پولیس پر دو حملے کیے ہیں۔  پہلا حملہ کورنگی میں ایک پولیس موبائل پر کیا گیا جبکہ دوسرا ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ٹریفک پولیس اہلکاروں پر جس میں ایک ٹریفک اہلکار جاں بحق جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔

کاؤنٹر ٹریرریزم ڈیپارٹمنٹ سندھ کے سربراہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ رواں برس ہونے والی اکثر وارداتوں میں جماعت ’’انصار الشریعہ پاکستان‘‘ ملوث ہے جو پولیس کو اپنا ہدف اول سمجھتی ہے۔ سائٹ میں چار پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کے بعد دہشت گرد جائے واردات پر ایک رقعہ بھی پھینک گئے تھے۔ اس پرنٹڈ خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پولیس ان کے نشانے پر ہے۔

ڈاکٹر ثنااللہ عباسی کے مطابق یہ گروہ ان افراد پر مشتمل ہے جو داعش کے نظریات سے متاثر ہیں اور افغانستان میں تنظیم کے مرکز ہلمند سے واپس لوٹے ہیں۔ خدشہ تھا کہ گروپ پولیس پر حملے شروع کرے گا لہذا اس حوالے سے پیشگی اطلاع جاری کر کے محتاط رہنے کی ہدایت کردی گئی تھی۔ لیکن طویل ڈیوٹی دورانیہ، موسم کی شدت اور تربیت کے پرانے ضابطوں کے باعث پولیس فیلڈ میں ڈیوٹی کرنے والے پولیس اہلکار لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دہشتگردوں کو موقع مل جاتا ہے۔

Pakistan Polizei in Karachi
ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی حفاظت کے لیے ان کے ہمراہ رینجرز تعینات کیے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہےتصویر: A. Hassan/AFP/Getty Images

مذکورہ حملوں میں ایک ہی گروہ کے ملوث ہونے کے دعوٰے میں کتنی صداقت ہے، یہ جاننے کے لیے سندھ پولیس کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل فرانزکس جاوید اکبر ریاض سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق اکثر وارداتوں میں ایک ہی جیسے ہتھیار استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جاوید اکبر ریاض کہتے ہیں کہ یہ ثبوت عدالت میں بھی قابل قبول ہے اور اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

پولیس اہلکاروں کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ سندھ پولیس میں آپریشنل ڈیوٹیز کرنے والے افسران اور اہلکاروں کے ڈیوٹی کا دورانیہ بارہ سےکم کر کے آٹھ گھنٹے کردیا گیا ہے۔ ٹریفک اہلکاروں کی حفاظت کے لیے ان کے ہمراہ رینجرز تعینات کیے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز نے پولیس پر حملے کرنے والوں کی گرفتاری میں مدد پر ایک کروڑ انعام دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ مگر نہ تو پولیس اور نہ ہی کسی اور ادارے کے پاس اس گروہ سے متعلق ایسی ٹھوس معلومات موجود ہیں کہ جو ان کی گرفتاری میں مدد کر سکے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ پولیس پر حملوں کی وارداتوں میں تسلسل سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے پہلے مکمل ہوم ورک کیا ہے اور اس کے بعد پھر کارروائیاں شروع کی ہیں۔ سندھ حکومت اور آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کے درمیان جاری رسہ کشی اور بے یقینی کی صورت حال سے بھی دہشت گردوں کو کھلا موقع مل رہا ہے۔ سینیئر تجزیہ کار کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے شہر کے ہر علاقے میں بلا کسی خوف کے کاروائیاں کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد تربیت یافتہ بھی ہیں اور شہر سے اچھی طرح واقف بھی۔ جبھی بھلے وہ دن کے وقت واردات کریں یا پھر رات میں، باآسانی فرار ہوجاتے ہیں۔

کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟