کراچی: سانحہِ بارہ مئی کی دوسری برسی
12 مئی 2009سانحہ بارہ مئی کے اثرات شہریوں کے ذہنوں اور زندگیوں پر کس حد تک مرتب ہوئے ہیں اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت سندھ نے کراچی میں آج کے روز عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ شہر میں آج خوف و ہراس کی فضا دن بھر قائم رہی اور گلیوں اور سڑکوں پر سناٹا رہا۔
مگر حالات اس نہج تک پہنچے کیسے؟
آج سے دو سال قبل کراچی کی دو بڑی نسلی آبادیوں کے درمیان شدید فسادات ہوئے جن میں چند گھنٹوں کے دوران 50 سے ذیادہ شہری ہلاک اور 150 کے قریب زخمی ہوئے۔
اس خون ریزی کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معطل شدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لئے کراچی پہنچے، جہاں انہیں اس وقت کی حکومت نے ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔
متحدہ قومی موومنٹ نے جو کراچی کی مہاجر آبادیوں کی نمائندہ جماعت ہے اور گذشتہ ایک دہائی سے مسلسل قومی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ رہی ہے، جسٹس چوہدری کو کراچی کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی نے جسٹس چوہدری کی حمایت کا اعلان کیا اور اس طرح بارہ مئی 2007 کے روز کراچی آگ و خون کی لپیٹ میں آگیا۔
دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور حامیوں نے جو مسلح تھے ایک دوسرے پرحملے کئے جب کہ سیکیورٹی اہلکار بےبس اپنی چوکیوں میں موجود رہے۔
اس سانحے کے بعد مہاجروں اور پشتونوں کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور دونوں جماعتوں کی طرف سے نسلی تعصب کو ہوا دی جاتی رہی۔ اس تعصب کی سنگینی کا اظہار گذشتہ ماہ ہوئی ہلاکتوں سے ہوتا ہے جب 33 کے قریب افراد کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران ہلاک ہوئے۔
متحدہ قومی موومنٹ کا دعوی ہے کہ کراچی میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے کے شورش زدہ علاقوں سے مہاجرین کی شکل میں دراصل طالبان کراچی کا رخ کررہے ہیں تاکہ وہ کراچی پر قبضہ جماسکیں۔ لیکن عوامی نیشنل پارٹی نے جو مرکز اور صوبہ سرحد میں حکومت میں ہے، ابتدا ہی سے اس دعوے کو رد کرتی ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق کراچی میں کشیدگی کی بنیادی وجہ شہر میں نسلی بنیادوں پر کی جانے والی سیاست ہے جس کے تانے بانے مبینہ معاشی مفادات سے ملتے ہیں۔