1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگریس پارٹی کا انتخابی منشور جاری

افتخار گیلانی، نئی دہلی24 مارچ 2009

بھارت میں حکمراں کانگریس پارٹی نے آئندہ عام انتخابات کے لئے اپنا انتخابی منشورجاری کردیا۔جس میں تمام شہریوں کو سلامتی، وقار اور خوشحالی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HItE
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کے ہمراہ منشور کے اجراء کے موقع پرتصویر: AP

دوسری طرف اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے الزام لگایا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران کانگریس پارٹی کی حکومت نے عوام کے فلاح وبہود کے لئے کوئی نمایاں کام نہیں کیا۔

کانگریس پارٹی نے اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے ڈاکٹر من موہن سنگھ کوایک بار پھر وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر پیش کیا۔ پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے اس اعلی ترین عہدے کے لئے اپنی اور اپنے بیٹے راہول گاندھی کے دعوےداری کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ من موہن سنگھ ہی وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے کیوں کہ ان میں ہی وہ تجربہ اور صلاحیت ہے کہ ملک کو ترقی کے راستے پر لے جاسکیں۔ سونیا گاندھی نے حکومت کی پچھلے چار سال کی کارکردگی کی بنیاد پر کانگریس پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ان کی پارٹی تمام شہریوں کے تحفظ وسلامتی، وقار اور خوشحالی کے لئے کام کرنے کے عہد کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی باگ ڈور ایسی حکومت کے ہاتھوں میں ہو جو استحکام، تسلسل اور قومی اتحاد کی علامت رہی ہے۔

کانگریس پارٹی نے اپنے منشور میں پچھلے چار سالہ کارکردگی کا ذکرکرتے ہوئے متعدد وعدے کئے ہیں۔ پارٹی نے کہا کہ اس کی حکومت تمام شہریوں کو حتی الامکان سیکیورٹی فراہم کرے گی، فوج اور دفاع کے شعبوں کی جدید کاری کرے گی، پولیس فورس میں اصلاحات کرے گی، قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم کو تیز کرے گی، تمام شہریوں کی صحت کی ضمانت د ے گی، سب کو بہتر تعلیم فراہم کرے گی، کسانوں اور ان کے خاندان کی بہتری کے منصوبوں میں توسیع کرے گی اور ایک آزاد اور ملکی مفاد سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی پر عمل جاری رکھے گی۔

لیکن اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس حکومت نے عوام اور ملک کے حقیقی مفاد میں آج تک کچھ نہیں کیا۔ بی جے پی کے سابق صدر وینکےا نائیڈ و نے اس حوالے سے کہا :’’ عوام نے آپ کو موقع دیا آپ نے عوام کو دھوکہ دیا، آپ نے کہا کہ عوام کو سیکیورٹی فراہم کریں گے۔ آپ کے آنے کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہوا، ساڑھے چار سال تک کہتے رہے کہ پوٹا جیسے سخت قانون کی ضرورت نہیں ہے لیکن آخر وقت میں آپ نے ایک نیا قانون نافذ کیا، آخر اس کی وجہ کیا ہے، آپ کیا چاہتے ہیں۔ کانگریس کے ہاتھوں میں ملک محفوظ نہیں ہے۔‘‘

اس موقع پر وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کہا کہ اس وقت جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں میں عدم استحکام کی صورت حال ہے ایسے میں بھارت خطے میں زبردست تبدیلی کی سمت متعین کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مضبوط بھارت ایک خوشحال جنوبی ایشیا کا ضامن ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ عوام کے لئے یہ ایک تاریخی موقع ہے۔عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے اس موقع پر مظفر رزمی کا ایک شعر توڑ مروڑ کر کچھ یوں پڑھا ’’ کچھ ایسے بھی منظر ہیں تاریخ کی نظروں میں ۔۔۔ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔‘‘

ڈاکٹر سنگھ نے بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار لال کرشن اڈوانی کے اس الزام کی تردید کی کہ وہ ایک کمزور وزیر اعظم ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ اڈوانی جب بی جے پی حکومت میں وزیر داخلہ تھے تب بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا، لال قلعہ پر حملہ ہوا، گجرات کے مسلم کش فسادات ہوئے، انڈین ایرلائنس کے طیارے کا اغوا ہوا، قندھار لے جاکر دہشت گردوں کو رہا کیا گیا، کارگل جنگ ہوئی اور آپریشن پراکرم کے نام پر اربوں روپے ضائع کئے گئے۔ تاہم بی جے پی کے رہنما وینکےا نائیڈو اس الزام کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں۔ ’’کارگل ہوا تو کیا ہوا، پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایک انچ بھی زمین انہیں نہیں ملی اور جو حرکت انہوں نے کی اس کی وجہ سے دنیا بھر میں الگ تھلگ پڑ گئے۔ اور قندھار کی بات جوبار بار یہ پارٹی کہتی تو کیا وہ چاہتی تھی کہ ہوائی جہاز میں موجود سینکڑوں یرغمال شہریوں کو ہلاک کروادیا جائے۔‘‘

وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے گذشتہ سال ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جو سفارتی کوششیں کیں اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہو ا اور پاکستان نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا کہ ان حملوں میں اس کے شہری ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنگی جنون مسئلے کا حل نہیں ہے اور امید ظاہرکی کہ پاکستان ایسے اقدامات کرے گا جن سے ان حملوں کے قصورواروں کو سزا مل سکے گی۔

انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر پاکستان بھارت کی شکایات کا ازالہ کرتا ہے اور دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچوں کو ختم کرتا ہے کہ کانگریس کی قیادت والی حکومت تعلقات کو فروغ دینے کے لئے مثبت جواب دے گی۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ تعلقات کو بہتر بنانے کی پوری ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے اور منشور میں یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ کانگریس پارٹی کی حکومت نے ہی دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان باہمی تعلقات کو عروج پر پہنچایا لیکن ممبئی حملوں نے اس کوشش پر پانی پھیر دیا۔

اس انتخابی منشور میں بھی اقلیتوں کو لبھانے کے لئے کئی وعدے کئے گئے ہیں۔ جس میں وقف املاک کے فروغ کے لئے ایک وقف ترقیاتی کارپوریشن کے قیام اور طب یونانی کے فروغ کے لئے قومی یونانی یونیورسٹی کے قیام کا وعدہ شامل ہے۔ منشور میں یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت اقلیتوں اور کمزور طبقات کو بااختیار بنائے گی، قومی انسانی حقوق کمیشن کو زیادہ اختیارات دے کر فرقہ پرستانہ اور ذات پات پر مبنی زیادتیوں کا سختی سے مقابلہ کرے گی‘ یکساں مساوات کمیشن قائم کرے گی اور پولیس کو زیادہ جواب دے بنائے گی۔