1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانکون کی عالمی آب و ہوا کانفرنس ميں کيا ممکن ہے

26 نومبر 2010

يک سال قبل کوپن ہيگن ميں عالمی آب و ہوا کانفرنس کے نتائج سے دنيا کو مايوسی ہوئی تھی۔ اب ميکسيکو کے شہر کانکُون ميں 29 نومبر سے شروع ہونے والی عالمی آب و ہوا کانفرنس ں۔سے اتنی زيادہ اميديں وابستہ نہيں کی جا رہی ہيں۔

https://p.dw.com/p/QJSQ
کرسٹيانا فگيريستصویر: picture-alliance/dpa

ايک سال قبل کوپن ہيگن ميں عالمی آب و ہوا کانفرنس کے نتائج سے دنيا کو مايوسی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے اب ميکسيکو کے شہر کانکُون کی عالمی آب و ہوا کانفرنس سے  زيادہ اميديں تو وابستہ نہيں کی جا رہی ہيں، ليکن کم ازکم بعض شعبوں ميں ٹھوس فيصلوں کی توقع ہے۔

جرمنی کے وزير ماحوليات نوربرٹ ریوٹگن اور اقوام متحدہ کے ماحولياتی ادارے کی سربراہ کرسٹيانا فگيریس کو اميد ہے کہ کانکون کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس ميں بالخصوص آب و ہوا کے تحفظ کے اقدامات کے اخراجات اور جنگلات کی حفاظت کے ذريعے مضر گيسوں کی مقدار ميں کمی کے سلسلے ميں اتفاق رائے ہو جائے گا۔ کرسٹيانا فيگيریس نے کہا:

Dossierbild Klimagipfel Cancun Mexiko 2010 Logo Bild 3
کانکون عالمی آب و ہوا کانفرنس کا لوگو

’’کانکون ميں حکومتيں تحفظ ماحول کے لئے ضروری ٹيکنالوجی کی منتقلی اور جنگلات کی حفاظت جيسے امور پر متفق ہو سکتی ہيں۔ اسی طرح آب و ہوا کے تحفظ کے لئے ايک عالمی فنڈ پر بھی اتفاق کيا جا سکتا ہے، جس کی مدد سے اس سلسلے ميں لمبی مدت کے اخراجات کا معاملہ طے ہو سکے۔ ليکن يہ بھی فراموش نہيں کیا جانا چاہئےکہ اب بھی بہت زيادہ سياسی رکاوٹيں حائل ہيں۔‘‘

Flash-Galerie Klimagipfel
کانکون کا ساحلی منظرتصویر: AP

جو بڑے اختلافات پائے جاتے ہيں، ان کا تعلق سائنسی علمی معلومات اور سياسی پيشکشوں سے ہے۔ امير اور غريب اور صنعتی اور ترقی پذير ممالک کے درميان بھی ناگزير خليج پائی جاتی ہے۔ ليکن تمام ہی ملکوں کو دو باتوں کا علم ہے:  ايک تو يہ کہ آب و ہوا کی تبديلی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور کوئی بھی ملک ايسا نہيں، جو اس کے اثرات سے بچ سکے۔ اور دوسری يہ کہ سب ممالک ہی کو مذاکرات تيز کرنا چاہئيں کيونکہ آب و ہوا ميں خطرناک تبديلی کو، اپنے طرز عمل ميں تبديلی کے ذريعے روکنے کے لئے ہمارے پاس اب زيادہ مہلت نہيں ہے۔ کرسٹيانا فگيریس نے کہا کہ بعض ممالک تو اس سلسلے ميں اپنی قومی سطح پر اُس سے آگے نکل چکے ہيں، جو اب تک عالمی مذاکرات ميں طے پا سکا ہے:

’’بہت سے ملکوں نے اپنی قومی سطح پر جو اقدامات کئے ہيں، ان سے يہ اميد پيدا ہوتی ہے کہ ايسے ممالک کی تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے، جو نہ صرف آب و ہوا ميں تبديلی کو روکنے کے لئے مضر مادوں کے اخراج ميں کمی کو سنجيدگی سے اہميت ديتے ہيں بلکہ وہ اسے اپنی قومی سياست اور قوانين ميں بھی جگہ دے رہے ہيں۔‘‘

چین نے اپنے بارہويں پانچ سالہ منصوبے ميں توانائی ميں بچت اور توانائی کے قابل تجديد ذرائع کو خاص اہميت دی ہے۔ مولداویا اور کوسٹا ريکا جيسے چھوٹے ممالک نے ايسے منصوبے تيار کر لئے ہيں، جن ميں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو تقريباً مکمل طور پر ختم کر ديا گيا ہے۔ اس طرح وہ دکھا رہے ہيں کہ آب و ہوا اور ماحول کے تحفظ کے ساتھ بھی اقتصادی نمو ممکن ہے۔                                                                               

رپورٹ: ہیلے ژیپے سن / شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں