1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ کاش کشمیری طلبہ کے ہاتھوں میں پتھر کے بجائے بندوق ہوتی‘

8 جون 2017

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک اور طالب علم کی ہلاکت کے بعد حالات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ایسے میں بھارتی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ کاش کشمیری طلبہ مسلح ہوتے۔

https://p.dw.com/p/2eKcP
Symbolbild Steinigung
تصویر: Sajjad Hussain/AFP/Getty Images

بھارت کو کشمیریوں کے غم و غصے کو قابو میں کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی حکام  مسلح باغیوں کے خلاف کارروائیوں کو تو جائز سمجھتے ہیں تاہم طالب علموں کی جانب سے سنگ باری پر انہیں کچھ پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بیپن راوت نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’میری خواہش ہے کہ اگر وہ ہم پر پتھراؤ کرنے کے بجائے فائرنگ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو مجھے خوشی ہو گی اور پھر میں وہ سب کچھ کر سکتا ہوں ، جو میں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

Kashmir | Ausschreitungen in Srinagar
تصویر: Reuters/D. Ismail

منگل کی شام بھارتی کشمیر میں شوپیاں کے علاقے میں ایک پر تشدد احتجاجی مظاہرے میں شریک ایک کشمیری نوجوان گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق اس طالب علم کے سینے میں گولی لگی تھی اور وہ منگل کی رات دیر گئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان باغیوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین ہونے والی فائرنگ کی زد میں آگیا تھا۔

دوسری جانب بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پاکستانی سرحد کے قریب ہونے والی ایک مسلح جھڑپ کے نتیجے میں ایک بھارتی فوجی اور تین مشتبہ باغی مارے گئے ہیں۔ بھارتی فوج کے مطابق لائن آف کنٹرول پر بھارتی زیرانتظام کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تین مشتبہ عسکریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ بیان کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ایک بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوا۔ بھارتی فوج کے مطابق گزشتہ روز بھی اس نے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔

اندازے کے مطابق کشمیری باغیوں کے رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے سو سے زائد نوجوان کشمیری شدت پسندوں کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ پندرہ برس کی عمر میں ہتھیار اٹھانے والے وانی گزشتہ برس جولائی میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ بھارتی کشمیری طلبہ کی جانب سے احتجاج اس وقت شدید ہو گیا تھا، جب اپریل میں بھارتی سکیورٹی اہلکاروں نے پلوامہ میں ایک کالج پر چھاپہ مارا تھا۔