کابینہ ماؤنٹ ٹیمپل کا دورہ نہ کرے، نیتن یاہو
8 اکتوبر 2015اسرائیلی حکومت کے ایک نمائندے کے مطابق وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہ بیان گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری کشیدہ صورتحال کے تناظر میں دیا۔ تاہم نیتن یاہو کی جانب سے حالات کو پرامن کرنے کی کوششیں حکومت میں شامل کٹر یہودیوں سے ٹکراؤ کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ سخت ترین موقف کے حامل یہودیوں کا موقف ہے کہ نیتن یاہو کو اس بدامنی کے خاتمے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کرنے چاہیں اور ساتھ ہی یہ حلقے یہودی بستیوں میں توسیع کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاہم نیتن یاہو ایک جانب امریکی انتظامیہ کو ناراض کرنا بھی نہیں چاہتے تاہم دوسری طرف تازہ صورتحال میں اگر وہ مزید سخت اقدامات اٹھاتے ہیں تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں اور تصادم مزید ہلاکتوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ماؤنٹ ٹیمپل اور اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد الاقصی یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ زیادہ تر فلسطینوں کا موقف ہےکہ اسرائیل اس مذہبی مقام پر اپنی موجودگی اور اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے جب کہ یروشلم حکام اس الزام کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ ماؤنٹ ٹیمپل کے حوالے سے فریقین طویل عرصے سے ایک معاہدے پر عمل کرتے آ رہے ہیں۔ اس کے تحت اس مقام کا انتظام مسلمانوں کے پاس ہے اور یہودی دن میں صرف چند گھنٹوں کے لیے یہاں آ سکتے ہیں لیکن عبادت نہیں کر سکتے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ نیتن یاہو نے یہ پابندی عائد کرنے کا مقصد حالات کو مزید بگڑنے سے روکنا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ کسی اعلیٰ اہلکار کا اس مقام کا دورہ تشدد میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ 2000ء میں اس وقت کی حزب اختلاف کے رہنما آرئیل شیرون نے ماؤنٹ ٹیمپل کا دورہ کیا تھا اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد فلسطینیوں کی دوسری انتفادہ تحریک (بغاوت) شروع ہوئی تھی۔
تاہم نیتن یاہو کے اس حکم نامے کے رد عمل میں کابینہ کے رکن اوری آریئیل نے آج جمعرات کے روز کہا کہ وہ اس معاملے پر بینجمن نیتن یاہو سے براہ راست بات کریں گے۔ اسی طرح دو اراکین پارلیمان نے جمعے کے روز ماؤنٹ ٹیمپل کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔