1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل نے ترک اسکولوں کا انتظام انقره کے حوالے کر دیا

شادی خان سیف، کابل
26 فروری 2018

ایک طویل اور پیچیده عمل اور شدید مخالفت کے باوجود کابل حکومت نے بالآخر متنازعه افغان – ترک اسکولوں کا انتظام انقره حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2tLy9
Türkei Kabul - Proteste gegen die Kontrollübernahme der Schulen zu Ankara
تصویر: DW/S. Khan

افغانستان اور پاکستان کے بشمول دنیا کے کئی ممالک میں ایک عرصے سے فعال یه تُرک اسکول اس وقت متنازعه ہوگئے جب جولائی 2016 میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کا تخته الٹنے کی کوشش ناکام ہوئی اور اس بغاوت کی ذمه داری امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح الله گولن پر ڈالی گئی جنہیں مبینه طور پر ان تُرک اسکولوں اور اس جیسے دیگر متعدد منظم نیٹ ورکس کا کرتا دهرتا تصور کیا جاتا ہے۔

تب ہی سے ترک حکومت ان نیٹ ورکس کے خاتمے اور اس کے پیچھے چهپے مبینه ہاتهوں کو بے نقاب اور گرفتار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

افغان وزیر تعلیم محمد ابراہیم شنواری اور ان کے ترک ہم منصب عصمت ایلماز نے پیر 26 فروری کو مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے جس کے تحت ملک بهر میں فعال 12 افغان – ترک اسکول اور تین ٹیوشن سنٹرز، رسمی طور پر ترک حکومت کے انتظام میں دے دیے گئے۔

ان تعلیمی اداروں میں ایک سو سے زائد ترک اساتذه مقرر ہیں، جن میں سے کچھ کو گولن تحریک سے مبینه روابط کی بنیاد پر افغان سکیورٹی اہلکار گرفتار بهی کر چکے ہیں۔ یہ ترک اسکول ملک کے سات اہم شہروں میں پهیلے ہوئے ہیں، جن میں متوسط اور اعلٰی طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

ابراہیم شنواری کا کہنا تها که ان اسکولوں کا انتظام ترک حکومت کے حوالے کرنے کا واحد مقصد معیار تعلیم کو مزید بہتر کرنا ہے: ’’فوری طور پر ان اسکولوں کی موجوده تعداد آٹھ  سے بڑها کر 28 کر دی جائے گی اور یہاں زیر تعلیم شاگردوں کی تعداد بهی بڑها کر 28 ہزار کر دی جائے گی۔‘‘

شنواری کے مطابق ترک حکومت نے یه وعده بهی کیا ہے که ان اسکولوں میں افغان شہدا کی اولادوں کو مفت تعلیم دی جائے گی اور دیہات سے آنے والے بچے بچیوں کے لیے ہاسٹل کی خدمات بهی فراہم کی جائیں گی۔

ترک وزیر عصمت ایلماز کے بقول ان افراد کو ان اسکولوں کی انتظامیه سے دور کر دیا جائے گا جو دونوں ممالک کی تاریخی دوستی کو خراب کرنے کے در پے ہیں: ’’ہم کسی کو یه موقع نہیں دیں گے که وه ہمارے دوستانه تعلقات کو خراب کریں۔‘‘ ترک حکومت نے اس ضمن میں قریب 20 ملین ڈالر کی سرمایه کاری کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔

ترک حکومت نے افغانستان اور پاکستان سمیت دیگر تمام ممالک میں ترک اسکولوں کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ’معارف فاونڈیشن‘ 2016ء میں ہی قائم کر دی تهی، جس کا بنیادی مقصد بیرون ملک ان اسکولوں کا کنٹرول حاصل کر کے ان کا انتظام از سر نو تشکیل دینا ہے۔

افغانستان میں معارف فاؤنڈیشن کے رابطه کار مجیب اولوداغ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که ترک حکومت دنیا بهر میں پهیلے ہوئے ان اسکولوں کی از سر نو تشکیل کے بعد انہیں ایک معیاری اور بااعتماد برانڈ کے طور پر متعارف کروائے گی۔

Türkei Kabul - Proteste gegen die Kontrollübernahme der Schulen zu Ankara
افغان ترک اسکولوں کی سابقه انتظامیه کابل حکومت کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔تصویر: DW/S. Khan

افغان ترک اسکولوں کی سابقه انتظامیه البته اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ پیر 26 فروری کے روز بهی کابل میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کابل حکومت کے فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے سیاسی جوڑ توڑ اور دباؤ کا نتیجه قرار دیا۔

افغان ترک اسکولوں کے سابق نائب سربراه فواد حیدری کے بقول کوئی وجه نہیں جس کی بنیاد پر ان اسکولوں کا انتظام ترکی کے حوالے کر دیا جائے: ’’فتح الله گولن کا ان اسکولوں سے کوئی لینا دینا نہیں اور نه ہی وه ان سکولوں کے لیے کوئی فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ یه اسکول اسی فیس سے چلائے جا رہے ہیں جو بچوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید