1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیزرٹَیک: دھوپ سے بجلی کے حصول کا نیا منصوبہ

رپورٹ: ایستھر ثاؤب، امجد علی / ادارت: شامل شمس 14 جولائی 2009

تیرہ جولائی کو جرمنی میں متبادل توانائیوں کے تاحال سب سے بڑے پروگرام ڈیزرٹَیک کی بنیاد ڈالی گئی۔ اِس پروگرام کے تحت دُنیا کے زیادہ دھوپ والے خطوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کر کے یورپ میں برآمد کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/IpA6
کیلی فورنیا کے صحرا میں واقع ایک شمسی بجلی گھرتصویر: AP

اِس منصوبے کی داغ بیل ڈالنے والی جرمن اور یورپی کمپنیوں کی نظریں اِس حوالے سے بالخصوص براعظم افریقہ پر لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس منصوبے سے افریقی ملکوں کو کیا ملے گا؟ کیا معدنی وسائل کے بعد اب اُن کی دھوپ بھی چوری کی جائے گی؟ یا یہ کہ یہ منصوبہ روزگار کے مواقع اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کا ایک نادر موقع فراہم کر رہا ہے۔

مصر میں سال میں تین ہزار گھنٹے دھوپ رہتی ہے، جس کی وجہ سے موسم گرما میں درجہء حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ ایئر کنڈیشنرز کے ذریعے ا ِس حرارت کو ختم کرنے کی بجائے اِن شمسی لہروں کو درحقیقت توانائی کی شکل بھی دی جا سکتی ہے۔ اِس کے لئے رقبہ کافی مقدار میں موجود ہے۔ مصر کا چھیانوے فی صد علاقہ صحراؤں پر مشتمل ہے۔ یہی بات لیبیا یا سوڈان کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔

اپنے تیل اور گیس کے قیمتی معدنی وسائل جلانے اور سرکاری اعانت سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے یہ ملک شمسی توانائی سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور معدنی تیل فروخت کر سکتے ہیں یا ماحول پسند بجلی باقی دُنیا کو برآمد بھی کر سکتے ہیں کیونکہ تیل تو ایک روز ختم ہو جائے گا لیکن دھوپ نہیں۔

Desertec Projekt Karte in Afrika Wüste Photovoltaik
DESERTEC فاؤنڈیشن کا تیارکردہ خاکہ، جس میں دکھایا گیا ہے کہ افریقہ میں کہاں کہاں سے، کن ذرائع سے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔تصویر: Desertec Foundation

ڈیزرٹَیک میں شامل فرموں کا کہنا ہے کہ صحراؤں میں پیدا کی جانے والی بجلی کا ایک بڑا حصہ وہیں رہے گا اور قابلِ قبول قیمت پر متعلقہ ملک کو فراہم کیا جائے گا۔ مصر میں آج کل فوٹو وولٹائیک سیل سے پیدا کی جانے والی بجلی روایتی طریقے کے مقابلے میں چار گنا مہنگی پڑتی ہے تاہم اگر اِن پیچیدہ شمسی سیلوں کی بجائے دھوپ کی حرارت کو استعمال کیا جائے تو لاگت میں بہت زیادہ کمی آ جائے گی۔

نئی جادوئی اصطلاح ہے، سولر تھرمل اینرجی کی۔ اِس طریقے میں پانی کو بھاپ کی شکل دی جاتی ہے اور بھاپ کی مدد سے ٹربائنز کو ویسے ہی چلایا جاتا ہے، جیسے کہ گیس یا کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں۔ واحد فرق یہ ہے کہ حرارت کسی آگ سے نہیں بلکہ سیدھی سورج سے حاصل کی جاتی ہے۔ اِس طریقے میں دھوپ کی شعاعوں کو ایک ہی نقطے پر مرکوز کرتے ہوئے کسی پائپ میں موجود مائع کو گرم کیا جاتا ہے۔

یہ طریقہء کار سننے میں بھی پیچیدہ معلوم نہیں ہوتا اور حقیقت میں بھی سادہ ہی ہے۔ افریقی براعظم کے لئے یہ ایک نادر موقع ہو سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو آئینے اور پائپ افریقہ کے اندر ہی اُس جگہ تیار کئے جا سکتے ہیں، جہاں بالآخر بجلی گھر بنیں گے۔ جب یورپی فرمیں متعلقہ طریقہ ہائے کار اور مشینیں برآمد کر دیں گی تو ایک وقت ایس بھی آ سکتا ہے کہ جب بجلی پیدا اور محفوظ کرنے والے پیچیدہ آلات بھی وہیں افریقہ میں تیار ہو سکیں گے۔

Memoclick-Brasilien Solar Millennium Projekt Desertec, Solarstrom aus der Wüste
صحراؤں میں نصب کی جانے والی شمسی تنصیبات سے پوری دُنیا کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔

گویا افریقی ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اُن کی اپنی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی اور وہ اضافی بجلی یورپ کو برآمد بھی کر سکیں گے۔ اِس طرح سے حاصل ہونے والی آمدنی میں ظاہر ہے، وہ جرمن کمپنیاں بھی حصے دار ہوں گی، جو پہلے اِس منصوبے میں سرمایہ کاری کریں گی۔

اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شمسی توانائی کے اِس منصوبے سے شمالی افریقہ کے اُن ملکوں کو توانائی کی پیداوار کا ایک اچھا متبادل ذریعہ فراہم کیا جا سکتا ہے، جو ایٹمی بجلی گھروں کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ مصر کچھ عرصے سے روس کے ساتھ ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر پر بات کر رہا ہے۔ فرانس لیبیا میں ایسا ہی بجلی گھر تعمیر کرنے کے لئے راضی ہو چکا ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی خارج نہیں ہو گی اور یوں ماحول بھی صاف ستھرا رہے گا، جو یورپ اور افریقہ دونوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔