’ڈی سِیٹ‘ ڈرامے کا غیر ڈرامائی اختتام
6 اگست 2015تحریک انصاف کی جانب سے اس معاملے پر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم جماعت کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا کوئی شوق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چاہے تو ان کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا شوق پورا کر لے۔
اس سے قبل جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پی ٹی آئی کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے لیے پیش کی گئی تحریک واپس لینے کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی درخواست اور اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد انھوں نے قرارداد واپس لی ہے۔
مولانا فضل االرحمن کے مطابق، ’’ہمارے تحفظات اب بھی موجود ہیں کیونکہ جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ پر ابھی بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے تحریک واپس لینے پر مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کے ارکان کا شکریہ ادا کیا۔ سردار ایاز صادق نے ایوان کو آگاہ کیا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے خلاف قرارداد واپس لینے کے لیے خود ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
ایاز صادق کے مطابق انہیں کچھ ساتھیوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ الطاف حسین کے حالیہ فوج اور رینجرز مخالف بیانات کی وجہ سے ان سے رابطہ نہ کریں۔ تاہم اسپیکر کا کہنا تھا کہ ایوان کے محافظ کی حیثیت سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تحریک کی واپسی کے معاملے پر الطاف حسین سے بات کریں گے۔انہوں نے بات چیت کے بعد قرارداد واپس لینے پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے فیصلے کو سراہا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اُن کی جماعت کا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی درخواست پر اور اپنے قائد الطاف حسین کی ہدایات کی روشنی میں اُن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو ڈی سِیٹ کرنے سے متعلق تحریک واپس لے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی سلمان خان بلوچ نے پی ٹی آئی کے خلاف پیش کی گئی تحریک واپس لی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی بڑی مشکل سےہوئی ہے اور تمام جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل جل کر اس کی مضبوطی کے لیے کام کریں۔ انہوں نے تحریک انصاف کے خلاف تحاریک کی واپسی کو ملک، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔
جمعرات چھ اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ تحریک انصاف کے ارکین کے خلاف تحریک کے پیچھے حکومتی مرضی شامل تھی: ’’یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے۔ جن جماعتوں نے یہ تحاریک جمع کرائی تھیں ان دونوں کے اراکین کی تعداد 33 بنتی ہے۔ اگر حکومت ان کو یہ تحاریک لانے دیتی اور اس پر ووٹنگ کراتی تو ان کو پتا لگ جاتا کہ سُبکی کس کی ہوتی ہے لیکن حکومت یہ سارا کھیل عمران خان اور تحریک انصاف سے دھرنوں کا بدلہ لینے کے لیے کھیل رہی ہے۔‘‘
کالم نگار اور اینکر پرسن مطیع اللہ جان تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان پارلیمنٹ میں جاری سیاسی آنکھ مچولی کو روایتی سیاست کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتےہوئے انہوں نے کہا، ’’دھرنے اور اس کے بعد انکوائری کمیشن کی کارروائی کے دوران عمران خان اور ان کی جماعت کے راہنماء مسلسل مسلم لیگ (ن) پی پی پی، جے یو آئی (ف)، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ تو اب یہ جماعتیں ان پر جو دباؤ ڈال رہی ہیں اس کے دو مقصد ہیں، اول یہ کہ عمران خان جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو من وعن تسلیم کریں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے لب ولہجے میں سختی کم کریں۔‘‘
مطیع اللہ جان کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان اور تحریک انصا ف کے لیے بھی بہت سے سبق ہیں، جو انہیں مستقبل کی سیاست کے حوالے سے مد نظر رکھنا ہوں گے۔